تحریر : اقبال زرقاش عرب کے ریگستانوں میں وہ ہلالِ عید رُونما ہوا جس کا خیر مقدم ہزاروں آنکھوں نے کیا۔ بے شمارہاتھ دُعا کے لیے یوں اُٹھے جیسے آسماں سے برستی ہوئی خوشیوں کو سہارا دیناچاہتے ہیں ،جیسے مسرت کے پھولوں کو سمیٹنا چاہتے ہیں۔ آمنہ کے لعل کی آمد سے برسوں کی تاریکیوں سے انسانیت کو چھٹکارا حاصل ہوا۔ نور والا آیا اور پوری کائنات پر اپنے نور کے جلوے بکھیر دئیے۔ عرب کی سرزمین اپنے اُوپر فخر محسوس کرنے لگی کہ اس پر وہ چاند رونما ہوا ہے جس کی روشنی دنیا کے اک کونے سے دوسرے کونے تک پھیل گئی۔ تخلیق کائنات کا حقیقی وارث اپنے ظہور کے ساتھ ہی رہتی دنیا تک انسانیت کی حقیقی تکمیل کر گیا۔ غم اور خوشی انسان کے خمیر میں شامل ہے جب وہ غم زدہ ہوتا ہے تو روکر اس کا اظہار کرتا ہے اور جب وہ خوش ہوتاہے تو اپنی خوشی کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتا ہے۔
بلاشبہ حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے بڑی خوشی کوئی اورہو ہی نہیں سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان جشنِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ ہر سال مناتے ہیں ۔ خوشی کا اظہار ہر سو دید کے قابل ہوتا ہے وہ ہستی جس کی خاطر کائنات کا ظہور ہوا۔
آمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھروں اور مساجد کو جس عقیدت و محبت سے سجا کر اپنی عقیدت اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں وہ منظر قابل رشک ہوتا ہے۔ جہاں ہرسو گلی کوچوں میں رنگ برنگے پرچموں کے ساتھ جلوس کے شرکاء حمد و نعت اور درودِ پاک کا ورد کرتے ہوئے آمد رسول کا جشن مناتے ہوئے درس محبت بھائی چارہ اور امن کی اک لازوال مثال پیش کر رہے ہوتے ہیں دوسری طرف کچھ لوگ اختلافات کے بیج بو کر اس جشن میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفلوں پر طنز کے تیر برساتے ہوئے نظر آتے ہیں حالانکہ ان کے گھروں میں جب کسی بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو وہ مٹھائیاں بانٹ کر مبارکباد دے دے کر ہر سال سالگرہ کا خصوصی اہتمام کرکے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں لیکن جب آمد رسول پرنور کے جشن میلاد کی بات آتی ہے تو ان کے چہروں پر شکنیں پڑنی شروع ہو جاتی ہیں۔ ان کا یہ دوہرہ معیار قابل افسوس عمل ہے۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ 12ربیع الاول مسلمانوں کو اپنے مذہبی عقیدت و احترام سے منانے کی سعادت عطا کرے۔
پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح اٹک میں بھی جشن عید میلاد النبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔ شہر کو دلہن کی طرح برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے ۔انجمن تاجراں اٹک اور دیگر مذہبی ، سیاسی و سماجی تنظیمیں اپنے بساط کے مطابق بھرپور مالی معاونت کر کے ہر سال جشن عید میلاد النبیٰ منانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ شہر کے ساتھ ساتھ ملحقہ دیہات میں بھی جشن میلاد کی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
گذشتہ دنوں اٹک کی اِک روحانی شخصیت نصیر احمد علوی نے اپنے گھر (ماڑی کنجور) میں عید میلاد النبیٰ اور سالانہ عرس مبارک پیر جمیل الدین علوی (قلندر) چکوال کے سلسلے میں اک تقریب منعقد کی جسکے مہمان خصوصی پیرسید آفتاب حسین شاہ سجادہ نشین باغ نیلاب تھے۔ ثناء خوانِ مصطفی نے تلاوت کلام پاک اور نعتیہ کلام سے محفل کو پرُنور بنادیا۔ حاضرین محفل اس پُروقار تقریب سے بے حد محظوظ ہوئے۔ تقریب کے آخر میں قلندری دھمال سے محفل میں وجد کی کیفیت کا روح پرور منظر دیدنی تھا۔
میزبان نصیر احمد علوی نے تقریب کے آخر میں مہمانوں کے لیے حلیم کے خصوصی لنگر کا اہتمام کر رکھا تھا۔ تقریب کے شرکاء کا اگلا پڑائو دوسرے دن قافلہ کی صورت میں “ڈالی” کے ساتھ چکوال شریف عرس کی تقریب میں شرکت کے لیے روانہ ہونا تھا۔ نصیر احمد علوی ہر سال عید میلا دالنبیٰ اور عرس مبارک کی تقریبات کا باقاعدگی کے ساتھ اہتمام کرتے ہیں جسمیں دوست احباب کو خصوصی دعوت دی جاتی ہے اور یہ پرنور تقریب اٹک سے چکوال تک جاری رہتی ہے اور بڑی تعداد میں عقیدت مند اس میں شرکت کرتے ہیں۔