تحریر : عمران چنگیزی اللہ رب العزت کا یہ کتنا بڑا کرم ‘ عنایت ‘ رحمت اور مہربانی ہے کہ اس نے انسان کی زبان کو قوت ِگویائی ‘ آنکھوں کو بصارت ‘ کانوں کو سماعت اور عقل وشعور کے ساتھ دانائی بھی عطا کرکے اسے نہ صرف اشرف المخلوقات کا درجہ عطا فرماکر اس دارِ فانی میں اسے اپنا نائب وخلیفہ مقرر کیا بلکہ انسان کو تمام ارضی و سماوی نعمتوں کا حقدار بنایا اور مخلوق کو اپنی رحمتوں ‘ نعمتوں اور برکتوں کے نزول کے قابل بنانے کے لئے اس کی اصلاح و رہنمائی کے واسطے اپنے نور یعنی محبوب خدا محمد مصطفی ﷺکو دنیا میں مبعوث فرمایا تاکہ نسل آدم ….اللہ کی جانب سے اس کے محبوب کے توسط و ذریعہ سے بھیجی جانے والی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر اپنے ازلی دشمن ”ابلیس “ کے شر سے محفوظ رہتے ہوئے اس راہ کا انتخاب کرے جس پر چلتے ہوئے وہ نارِ جہنم سے محفوظ رہے اور بہشتی نعمتوں و خزانوں کا حقدار قرار پائے۔ بعثت مصطفی ﷺ ….اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق سے بے پایاں محبت کا ایسا اظہار ہے جس پر انسان جتنا شکر اور جتنا فخر کرے اتنا کم ہے کیونکہ رب کا اپنی مخلوق سے محبت کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہوگا کہ اس نے اپنی مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اپنے اس محبوب کو عرش معلی سے فرش خاک پر مبعوث کیا جس کے واسطے عرش و فرش ‘ آب و ہوا ‘ صحراو بحر ‘ زمین و زماں سب کچھ خلق کیا اور جسے وجہہ تخلیق کائنات قرار دیا مگر نسل آدم کوشیطان کے شر اور گمراہی سے محفوظ بناکر اپنی دنیاوی و آخروی نعمتوں اور جنت کا حقدار ٹہرانے کیلئے محبوب سے جدائی کا صدمہ سہا اور رحمة اللعالمین محمد مصطفی کو دنیا میں مبعوث کیا کہ انسان سیرت مصطفی کی پیروی کے ذریعے رب تک پہنچنے والا راستہ تلاش کرسکے اور عشق مصطفی میں ڈوب کر رب کی رضا کا حقدار قرار پائے اور جسے رب کی رضا کا حصول ہوجائے تو پھر سمجھو کہ اس کی تخلیق کا مقصد پورا ہوگیا اور رب کی رضا احمد مجتبیٰ ‘ محمد مصطفی کی سیرت طیبہ پر صدق دل سے عمل اور ان کے عشق کو اپنی نس نس اور دل کی ہر دھڑکن میں سمانے سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔
اب ذرا سوچئے کہ اگر محبوب خدا ‘ محمد مصطفی دنیا میں تشریف نہ لاتے توقرآن کیسے آتا ‘ ہمیں ایمان کیسے ملتا اور ہم وہ سیرت طیبہ کہاں سے پاتے جس پر عمل کے ذریعے ہمیں رب کی رضا و خوشنودی حاصل ہوتی اور انعام میں بہشت کے حقدار قرار پاتے۔ یوں یوم ولادت مصطفی ہمارے لئے وہ ”سعد و مقدس “ ترین دن ہے جس دن رب نے ہمیں اپنی نعمتوں ‘ رحمتوں ‘ رضا اور انعام کا حقدار بنانے والی ہستی کو دنیا میں مبعوث کےاجس کے ثبوت کےلئے قرآن کریم میں رب رحمن و رحیم فرماتا ہے کہ ” ہم نے جملہ انسانوں کےلئے محمد کو بہتراور نذیر بناکر بھیجا ہے ‘ ان انسانوں کی طرف جو ان کے زمانے میں موجود تھے اور ان کی طرف بھی جو بعد میں آنے والے تھے “۔ (سورة الحشر آیت نمبر 1)
محمد مصطفی ﷺ کے دنیا میں تشریف لانے کا دن ‘ وہ دن ہے جب رحمت الٰہی اپنی مخلوق کی محبت میں اس قدر جوش میں تھی کہ اس نے محمد جیسی اپنی سب سے عزیز و محبوب ہستی کو خود سے جدا کرکے عرش معلی سے فرش ارض پر بھیجنا گوارا کیا کہ اس کی مخلوق ”ابلیس جہنمی “ کی صحبت سے محفوظ رہتے ہوئے نارِ جہنم کا ایندھن بننے کی بجائے ” بہشت “ کی نعمتوں سے لطف اندزو ہو۔
اس لئے اگر یوم ولادت مصطفی ﷺ…. محض یوم ولادت نہیں بلکہ اپنی مخلوق سے خالق کے اظہار محبت کا دن بھی ہے وہ دن جب رب نے اپنی مخلوق سے محبت کا باضابطہ اور علی اعلان اظہار کیا کس قدر تعظیم و تکریم اور انسان کےلئے کس قدر مسرت و انسباط کا دن ہونا چاہئے کہ ازل سے ابد تک اب ایسا اظہار دوبارہ کبھی نہیں ہوسکتا اسلئے اس اظہار محبت ربی کے دن کو جس قدر بھی جوش و جذبے ‘ تعظیم و تکریم اور خوشی ومسرت سے منایا جائے کم ہے۔ مطالعہ قرآن و اسلام اور تاریخ ومذہب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زمین و زماں ‘ کون و مکاں ‘ جبرئیل و میکائیل ‘ بہشت و برزخ اور ملائکہ سے قبل بھی محمد مصطفی ﷺ کا وجود تھا اور رب کی تمام تخلیقات کی بنیاد و اساس ذات محمد اورحُب محمدہی تھی یہی وجہ ہے کہ رب نے اپنے حبیب کا ذکر نہ صرف تمام الہامی مذاہب کی روحانی کتب میں کیا بلکہ کتاب الحکمت قرآن کریم فرقان مجید کو بھی ذکر مصطفی سے مزین رکھا اور ” لااِلٰہ َ اِلااللہ “کے ساتھ”محمد الرسول اللہ“ لگاکر اللہ و محمد کے ذکر کو یکجا کرکے زبان سے اقرار کرنے اور دل سے اس کی تصدیق کو ایمان سے رجوع قرار دیا اور پھراذان و نماز کی کاملیت کو ذکر مصطفی سے مشروط کرکے اپنے محبوب سے محبت کا جو اظہار کیا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ محبت مصطفی سے خالی دل کبھی حُب الٰہی کی جانب راغب نہیں ہوسکتا اور عشق مصطفی ﷺ ہی در اصل عشق الٰہی کی جانب رغبت اور صراط مستقیم کی جانب سفر کی بنیاد و اسا س ہے اور جب تک راہ کی شناخت نہ ہو ‘ اس پر چلنے کیلئے درست رہنمائی نہ ہو منزل تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ اسی لئے رب نے اہل ایمان کو قرآن کریم کی شکل میں بہشتی منزل تک پہنچے کی جو راہ دکھائی ہے اس کیلئے نبی کی زندگی وسنت رہنمائی کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ منزل تک پہنچنے کی ضمانت بھی ہے۔
اسلئے صرف اللہ پر ایمان لانے سے ہی رب کی رضا کا حصول ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے محبوب سے محبت اور اللہ کی ہدایت و عبادت کیلئے محمد کی سیرت سے رہنمائی کی بھی ضرورت ہے اسلئے جس طرح مسلمان پر نماز ‘زکوٰة اور روزہ فرض ہے اسی طرح ہر مسلمان کو سیرت نبوی کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ فرائض کی دائیگی کیلئے مستند رہنمائی کا حصول ممکن ہو اور ہم ہر اس غلطی و لغزش سے محفوظ رہ سکیں جو ہمیں رب کی رحمت سے دور کرکے قہرکا موجب ٹہرانے باعث بن جائے۔
رب ذوالجلا ل نے جہاں عبادات وفرائض کے ذریعے انسان کو رب کی رضا ونجات تک پہنچنے کی راہ دکھائی وہیں ذکر مصطفی ﷺ یعنی درود پاک کے ذریعے رب تک براہ راست رسائی اور رب کی رحمتوں کو اپنی جانب سفر کی دعوت دینے کا وسیلہ بھی بنادیا اور اہل ایمان کو بتادیا کہ روزہ ‘ نماز ‘ زکوٰة ‘ حج اور دیگر عبادات انسان پر فرض اور رب کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہیں مگر جب کوئی اہل ایمان صداقت کے ساتھ درود پاک کا ورد و ذکر کرتا ہے تو ملائکہ اس پر درود پڑھتے ہیں یعنی سلامتی کی دعا دیتے ہیں اور ملائکہ کا قیاس و شمار انسان کے بس سے باہر اور بعید از قیاس ہے۔
رب رحمن کو اپنے حبیب سے اس قدر محبت ہے کہ اس نے محمد سے ان کے ذکر کو بلند کرنے کا وعدہ فرمایااور پھر اس ذکر کو بلند کرنے کیلئے کائنات تشکیل دی ‘ انسان ‘ حیوان ‘ چرند ‘ پرند ‘ درند ‘ حشرات ‘ بادی ‘ خاکی ‘ آبی اورآتشی مخلوقات پیدا فرمائیں۔ آدم علیہ السلام کو خلق کیا حوا کا ساتھ عطا کیا گناہ کا پھل بنایا جو آدم کو جنت سے دنیا میں منتقل کرنے کا سبب بنااور آدم کا احساس تنہائی محبت کی ماہیت کے ادراک کا سبب بنا جس کے بعد حوا کو آدم کے پسلی سے پیدا فرماکر رب نے آدم ؑ کو ان کی عبادت وریاضت کا صلہ عطا کیا اور آدم و حو ا کی محبت و ملن افزائش انسانی کا باعث بنی اور آدم کے بعد دنیا میں ان ہی کی اولادوں میں انسان و انبیاءدونوں تشریف لاتے رہے مگر جب اللہ رب العزت نے انسان کو خسارے میں پایا تو خالقِ مخلوق کا اپنی خلق سے محبت کا جذبہ عود کرآیا اور اس نے اپنے محبوب کی جدائی و تنہائی کے کرب سے گزرکر انسان پر اپنی رحمت کی اور اپنے حبیب کو دنیا میں اسلئے مبعوث فرمایا کہ وہ حضرت انسان کو رب کی مرضی و رضا کی جانب ملتفت فرماکر انہیں رب کی رحمت اور جنت کا حقدار بنائیں۔
یوم بعثت مصطفی ﷺ وہ تاریخ ساز دن ہے جب رب نے انسان کی فلاح کیلئے اپنے حبیب کو خود سے جدا کیا اور محمد مصطفی ﷺ کو دنیا میں مبعوث کیا اس لئے رہتی دنیا تک یہ دن سب سے بڑا ‘ سب سے بابرکت اور سب سے زیادہ عظمت و الا دن کہلا یا جاتا رہے گا کیونکہ اس دن وہ ہستی اس جہان فانی میں رب کی جانب سے مبعوث کی گئی جس کی محبت ‘ اظہار محبت اور ذکر کو بڑھانے کیلئے یہ جہان تخلیق کیا گیا۔
خالق کو اپنے محبوب کے ذکر کو آسمانوں سے باہر پھیلانا بھی مقصود تھا اور تمام جہانوں کو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر سے معمور کرنا تھا اور رب کی یہی رضا تخلیق کائنات کا سبب تھی یہی وجہ ہے کہ رب نے اپنے ذکرکے ساتھ محمد کے ذکر کو لازم کردیا اور اذان و نماز کو بھی اس ذکر سے مشروط کرکے اس ذکر کو ہر لمحہ ‘ ہر ساعت کیلئے لازم بنادیا چونکہ جغرافیائی اعتبار سے دنیا کے ہر خطے میںہر لمحہ وقت مختلف ہوتا ہے اور اذان و نماز سورج کی چال و رفتار کے حساب سے ہوتی ہیں جس کی وجہ سے دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف اوقات میں اذان و نماز ہوتی رہتی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ وقت کے ہر لمحہ میں دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں اذان و نماز ہمہ وقت ہوتی رہتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وقت کے ہر لمحہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ساتھ اس کے رسول کا ذکر ہوتا ہے اور رسالت محمد کی گواہی دی جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس بات سے بھی انکا ر نہیں کیا جاسکتا کہ کائنات میں موجود ہر جاندار و بے جان شے ہر لمحہ ذکر الٰہی میں مصروف ہے انسان کے علاوہ چرند ‘ پرند‘ درند ‘ حشرات ‘ جنات ‘ آبی مخلوقات سے لیکر حجر ‘ شجر ‘ بحرو بر ‘ آب و باد‘ خاک و تاب تک ہر شے ہمہ وقت ذکر ربوبیت میں مشغول و مصروف ہے اور رب نے اپنے ذکر ” لااِلہٰ اِلااللہ “کی تکمیل کو ” محمد رسول اللہ “ سے مشروط کرکے اس ذکر کواس قدر بلند کردیا ہے کہ ہر لمحہ ہر مخلوق ذکر الٰہی کے ساتھ ذکرِ مصطفی میں بھی مشغول ہے۔
اسلئے یوم بعثت مصطفی ﷺ …. اہل ایمان کیلئے رب کی رحمت کے نزول کا وہ دن ہے جس دن رب نے انسان کوخسارے سے نکال کر فلاح کی جانب لانے کیلئے اپنے محبوب کو دنیا میں مبعوث فرماکر انسان سے اپنی محبت اور اس کی فلاح اور اس پر اپنی رحمت کے نزول کیلئے بیتاب و بیقرار ہونے کا ثبوت دیا اسلئے یہ دن اہل ایمان کیلئے ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں اور مخلوقات کیلئے اس عظیم نعمت سے نوازے جانے کا دن ہے جس کے صدقے اور وسیلے سے ہمیں رضائے الٰہی اور بہشت سمیت ہر نعمت ملنی ہے کیونکہ حضور اکرم کی ذات پاک اللہ کی نعمت عظمیٰ ہے اور باقی جملہ نعمتیں آپ کے صدقہ سے ہیںاسلئے سردارالا انبیاءکی تشریف آوری تمام عالمین کے لئے رحمت ہے اور سرور عالم کی ولادت کا جشن منانا درحقیقت اللہ کا تشکر ادا کرنا ہے کہ اس رب رحمن و رحیم نے ہمیں ان کی ا ±مت میں پیدا فرمایا جن کی نسبت و شفاعت سے آخرت میں جنت و مقام ملے گا۔
لیکن صرف خوشیاں اور جشن منانے سے حق بندگی ادا ہوگا نہ عشق محمدی پر پورا اترا جاسکے گا بلکہ یوم بعثت مصطفی کو رب کی احسانمندی ‘ شکر مندی ‘حب نبوی ﷺ کے احساس و جذبے کیساتھ خود احتسابی کی فکر کے تحت منانا ہوگا اور آمدِ مصطفی کا جشن مناتے ہوئے دل کو تشکر کے جذبات سے لبریز کرکے عشق مصطفی کے سچے شیدائی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے بارگاہِ ربی میں سر بسجود ہوکر اس بات کا عہد کرنا ہوگا کہ اپنے اعمال و افعال سے اقوال و الفاظ تک اور گفتگو و کردار سے اخلا ق تک اپنی زندگی کو مکمل طور پر سیرت طیبہ کے سانچے میں ڈھالا جائے اور سیرت طیبہ پر عمل پیرا رہتے ہوئے ”ابلیس “ کی ہر سازش کو ناکام بناکر ثابت کردیا جائے کہ ہم ”نارِ جہنم کا ایندھن“ نہیں بلکہ ”بہشتی خزانوں “ کے وہ ”حقدار“ ہیں جن کےلئے رب نے آسمانوں سے اپنے نور کو زمین پر مبعوث فرما کر ہدایت و رہنمائی کا سبب بنایا تاکہ ہم ”گمراہ“ نہ ہونے پائیں اور اس راہ پر چلیں جس پر رب ہمیں چلتا دیکھنا چاہتا ہے ‘ اس لئے جشن ولادت مصطفی صرف خوشیاں منانے کا نہیں بلکہ منشائے ربی کے مطابق ”صراط مستقیم “ پر چلنے کے عہد کا دن ہے کہ یہی ”عشق مصطفی “ سے سرشار ہونے کا ثبوت ہے۔
حضور پرنور ﷺ کی تشریف آوری سے پوری دنیا ئے انسانیت کومنزل ملی اور جشن ولاد ت نبوی ﷺ …. ا ±مت مسلمہ کو دعوت فکر دیتا ہے کہ انفرادی و اجتما عی سطح پر اسلام کے حقیقی تصو ر کو اجاگر کر کے اپنے کردار و عمل کی اصلاح کی فکر کے ساتھ اللہ کی بند گی کا حق ادا اور احکاما ت الٰہی پر عمل یقینی بنایا جائے۔
دنیا کا ہر مسلمان عشق مصطفی کے جذبہ سے سرشار ہے اور رب کی نعمتوں کے تشکر ‘ عشق مصطفی کے اظہار ‘ رب کی اطاعت کے اقراراور خود احتسابی و تذکیہ نفس کے عہد کی تجدید کے طور پر عشق مصطفی منانے کا حامی ہے اور اس امر پر کسی مسلک و فرقے کو کوئی اعتراض نہیں ہے صرف تاریخ و انداز کا فرق جشن مصطفی منانے اور نہ منانے والوں کے درمیان منافرت کا باعث بنا ہوا ہے جو کسی بھی طور امت مسلمہ کیلئے سودمند نہیں ہے ! جشن ولادت مصطفی ﷺ منانے کے حوالے سے جہاں ایک جہاں امت مسلمہ میں جوش و جذبہ اور عقیدت و احترام پایا جاتا ہے وہیں دوسری جانب اسے بدعت و خرافات بھی قرار دیا جاتا ہے کیونکہ طبقہ دوئم کا گمان ہے کہ حضور پرنور کی بعثت کے حوالے سے 12ربیع الاول کے مستند شواہد موجود نہیں ہیں ۔
خاکسار نہ تو طبقہ دوئم کے گمان کی نفی کی اہلیت رکھتا ہے اور نہ ہی طبقہ اول کے جوش و جذبہ کو غلط قرار دے سکتا ہے کیونکہ خاکسار و راقم مذہبی عالم نہیں!
لیکن بحیثیت مسلمان تمام فروعی و مسالکی تفاریق و اختلافات سے بالا و مبرا ہوکر خاکسار کا دل یہ کہتا ہے کہ اگر 12ربیع الاول کو ” جشن ولادت مصطفی ﷺ“ کا نام دیکر ”ابلیس نامراد “ کو صدا نامراد رکھنے ‘ سیرت طیبہ پر عمل پیرا رہنے اور اخلاق و کردار ‘ اعمال و اقوال اور گفتگو و اظہار کو احکام ربی کے مطابق ڈھالنے کے عہد کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور مسلکی طاقت کے اظہار ‘ نمود نمائش ‘ وسائل و وقت کے ضیاع اور ٹریفک وشاہراہوں کی بندش کے ذریعے مخلوق خدا کیلئے ایذا و تکالیف کے اسباب پیدا کرنے کی بجائے اس دن کو عبادت و مبارک‘ یکجہتی و یگانگت اور اصلاح و عہد کے طور پر منایاجاتا ہے تو ہر فرقے اور ہر طبقے کو یہ دن منانا چاہئے کیونکہ اللہ نے محمد مصطفی ﷺ کو مبعوث ہی اسلئے کیا تھا کہ وہ اس کی سب سے پیاری مخلوق یعنی حضرت آدم کو گمراہی سے نکال کر رب کی ہدایت و رضا کی جانب لائیں اور اس سے انکار کسی طور ممکن نہیں کہ مصطفی کی سیرت طیبہ رب کی رضا کا عملی نمونہ تھی!
جشن عید میلادالنبی ﷺ اگر مذہبی عقیدت و احترام اور جوش و جذبے کے ساتھ خود احتسابی کے آئینے کے ساتھ مناکر یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے کہ ہم اللہ کی مخلوق ہونے ‘ انسان ہونے ‘مسلمان ہونے اور ا ±مت محمدی میں شامل ہونے کا کس قدر حق ادا کررہے ہیں یا پھر کس قدر تیز رفتاری سے راندہ ¿درگاہ ‘ ملعون و لعین اور دشمن آدم ‘ دشمن اسلام و ایمان ” ابلیس “ کی پیروی میں اس راہ کے مسافر ہیں جہاں تباہی و بربادی ‘ ناکمی و تشنگی اور جہنم کی آگ ہماری منتظر ہے تو شاید ہم اپنی تخلیق کے مقصد کو پہچان کر اللہ و رسول کی حقیقی اطاعت کی جانب لوٹ آئیں !