ہارون اور احمد آج بہت خوش تھے کیونکہ ان کے ابو جی قربانی کے لیے 2 خوبصورت بکرے لے کر آئے تھے، دونوں نے بھاگ کر ایک ایک بکرا پکڑ لیا۔ بکروں کو آئے دو دن ہو چکے تھے، آج ذوالحجہ کا چاند بھی نظر آگیا مگر شعیب صاحب پریشان تھے کہ بچے بکروں کے پیچھے دیوانے ہیں۔ نماز پڑھنے بھی مشکل سے جاتے ہیں، احمد کی امی بھی شکایت کر رہی تھیں کہ بچے بالکل لاپروا ہوگئے ہیں۔ ہوم ورک بھی دھیان سے نہیں کرتے اور کہنا بھی نہیں مانتے۔ اسکول سے آتے ہی بکروں کی خدمت میں پیش ہوجاتے ہیں اور پھر سارا دن انہی کے پیچھے بھاگتے نکال دیتے ہیں اور دوستوں پر فخر جتاتے ہیں کہ ہمارے بکرے سب سے خوبصورت ہیں۔
رات کو شعیب صاحب عشاءکی نماز پڑھ کر آئے تو بچوں کو ساتھ لیکر بیٹھ گئے۔ تینوں بچے اپنے ابو جی کے زیادہ سے زیادہ قریب بیٹھنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ شعیب صاحب نے ہنستے ہوئے امیمہ کو اپنی گود میں بٹھا لیا، ہارون اور احمد کو اپنے سامنے۔ شعیب صاحب نے ہارون اور احمد کی طرف متوجہ ہوکر کہا، میرے بچو! آج میں آپ کو اچھی اور ضروری باتیں بتانا چاہتا ہوں، مجھے امید ہے آپ ضرور ان پر عمل کریں گے اور بچے فوراً ابو کی طرف متوجہ ہو گئے۔ دیکھو بچو! آپ کو پتا ہی ہے آج سے ذوالحجہ کا مبارک مہینہ شروع ہوگیا ہے اور اس مہینے کے شروع کے 10 دن اللہ تعالیٰ کے یہاں بہت قیمتی اور بڑا مقام رکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کسی بھی دن کیا ہوا عمل اللہ تعالیٰ کو ان دس دنوں میں کیے ہوئے عمل سے زیادہ محبوب نہیں ہے“۔
یعنی کہ ان 10دنوں میں آپ جو نیک کام کریں گے وہ اللہ تعالیٰ کو بہت ہی پسند آئیں گے اور اللہ تعالیٰ آپ سے بہت خوش ہوں گے۔ تو پھر ہم کیا نیکی کریں ابو جی کہ اللہ تعالیٰ ہم سب سے خوش ہوجائیں۔۔؟ ہارون نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔ سب سے پہلے تو یہ بیٹا جی! کہ آپ پانچوں نمازوں کی پابندی کریں خوب شوق اور محبت کے ساتھ مسجد میں باجماعت نماز ادا کریں۔ یہ جو آجکل آپ بکروں کے چکر میں نماز بھی مشکل سے پڑھنے جاتے ہیں نا اور کبھی تو چھوڑ ہی دیتے ہیں، تو یہ بات اللہ کو ناراض کرنے والی ہے۔ تو پھر کیا خیال ہے میرے ساتھ مسجد جا کر باجماعت نماز ادا کریں گے ناں آپ دونوں؟ جی ابو ۔دونوں نے ایک ساتھ کہا۔ اس کے علاوہ آپ خوب ذکر الٰہی کا اہتمام کریں کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ ”کوئی دن اللہ تعالیٰ کے ہاں ان 10دنوں سے زیادہ عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا عمل اللہ تعالیٰ کو ان 10دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب ہے۔ ان دنوں میں ”لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر، الحمدللہ پڑھتے رہنا چاہیے۔
پیارے بچو! ان کلمات کا بہت زیادہ ثواب ہے نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ ”سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا الل واللہ اکبر پڑھنا مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہیں جن پر سورج طلوع ہوتا ہے“۔ یعنی ساری دنیا بھی آپ کو مل جائے تو ساری دنیا کی چیزوں کے مل جانے سے زیادہ ان کلمات کا پڑھنا اچھا ہے کیونکہ دنیا کی چیزیں تو دنیا ہی میں ختم ہوجاتی ہیں لیکن ان کلمات کا ثواب اگلے جہان تک باقی رہے گا اور ہماری نیکیوں میں اضافے کا سبب بنے گا۔
ہارون اور احمد فوراً بولے ہم خوب خوب ان کلمات کو پڑھیں گے ابو جی، اور میں بھی سبحان اللہ پڑھوں گی ابو جی چھوٹی امیمہ بھی بول پڑی ۔ جی بیٹا ضرور پڑھیں سبحان اللہ کہنے سے جنت میں ایک درخت لگ جاتا ہے۔ سچی؟ امیمہ حیرت سے بولی، میں تو اتنے سارے لگاو ¿ں گی ابو جی، امیمہ دونوں ہاتھ پھیلا کر بولی دونوں بھائی اس کی اس حرکت پر ہنسنے لگے۔ اور وہ اسی وقت انگلیوں پر گننا شروع ہوگئی اور دس مرتبہ سبحان اللہ پڑھ کر بولی میں نے تو 10درخت لگا بھی لیے ابو جی ۔ اور ابو جی نے اسے خوب شاباش دی ۔
اچھا تو بچو! اور کون کون سے نیکی کے کام ہیں جو آپ لوگ ان دس دنوں میں کرنا چاہتے ہیں؟ ”ابو جی ! ہم خوب قرآن پاک کی تلاوت کریں گے اور جھوٹ نہیں بولیں گے، اور اپنی پاکٹ منی سے صدقہ بھی دیں گے۔ ماشاءاللہ بہت خوب ۔ اس کے علاوہ اور کیا؟ اور ہم کسی سے جھگڑا بالکل نہیں کریں گے، کسی کو تنگ نہیں کریں گے اور آپ دونوں کا کہنا مانیں گے اور ہارون سوچتے ہوئے بولا ”اور میں برابر والی پڑوسن خالہ کا سودا سلف بھی لادیا کروں گا“۔ شاباش میرا بیٹا یہ تو آپ نے بہت ہی اچھا سوچا۔ آپ کو پتا ہے نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ ”لوگوں میں سب سے اچھا وہ ہے جو دوسروں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچائے“۔
شعیب صاحب نے مزید کہا ہم ان شا اللہ دسویں دن اپنے رب کے حضور میں ان بکروں کی قربانی پیش کریں گے۔ قربانی کا گوشت خود بھی کھائیں گے اپنے عزیز رشتہ داروں اور غریبوں میں بھی تقسیم کریں گے تاکہ اللہ ہم سب سے راضی ہوجائے۔ پیارے بچو! خوشی تو اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پورا کرنے میں ہے خوشی وہ نہیں جو آپ رات دن قربانی کے جانوروں کے ساتھ کھیل تماشا کرنے میں گزار دیتے ہیں، ہر کام میں اعتدال ضروری ہے۔ یہ قربانی کے جانور شعائر اسلام میں سے ہیں ان سے محبت کریں، ان کی خوب خدمت کریں لیکن انھیں بے جا نہ ستائیں۔ قربانی کے جانوروں کو لیکر خواہ مخواہ گلیوں بازاروں اور راستوں میں دوڑ نہ لگائیں۔ ایک دوسرے پر فخر نہ کریں کہ ہمارا جانور زیادہ اچھا اور مہنگا ہے۔ خواہش ضرور ہونی چاہیے کہ جانور ہر لحاظ سے صحتمند اور خوبصورت ہو لیکن صرف اسی کو بڑائی کا معیار نہیں بنانا چاہیے، جس کی جتنی حیثیت ہوتی ہے وہ خرید لیتا ہے۔ کسی کا جانور اگر کمزور ہے یا خوبصورت نہیں ہے تو اسے حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں یہ بہت گناہ کی بات ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کے یہاں قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ آپ کی نیت، آپ کا تقویٰ اور آپ کے اندر کے جذبات پہنچتے ہیں کہ آپ کس جذبے کے تحت قربانی کررہے ہیں آپ کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے یا لوگوں پر برتری جتانا مقصود ہے ؟ یاد رکھو! اخلاص سے کیا گیا تھوڑا عمل بھی اللہ کے ہاں اہمیت رکھتا ہے اور دکھاوے کے لیے کیا گیا عمل پہاڑوں کے برابر ہو، تب بھی کوئی اجر نہیں دلا سکتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے غضب اور ناراضگی کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے آپ ان 10دنوں میں خوب نیکیاں کریں لیکن صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطرہو۔ بچوں نے ابو جی کی باتیں سننے کے بعد عزم کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ شکایت کا موقع نہیں دیں گے بلکہ ہر نیکی کے کام میں بھرپور حصہ ڈالیں گے، ان شاءاللہ