تحریر: ابنِ نیاز اس بچے نے بڑی حسرت سے دکان میں ٹنگے ہوئے عید کے لباس کو دیکھا۔ پھر ایک آہ بھر کر آگے بڑھ گیا۔اس نے اپنی کمر پر کاغذ، پلاسٹک کی اشیاء اکٹھی کرنے والا ایک بڑا تھیلا سا اٹھایا ہوا تھا۔ میں چند دن پہلے بازار سے گزر رہا تھا کہ اس بچے پر اس وقت میری نظر پڑی جب وہ حسرت بھری نگاہوں سے دکان کے باہر کھڑا ونڈو شاپنگ کر رہا تھا اور پھر جب اس نے نظریں جھکا کر آہ بھری اور آگے بڑھا تو یقین مانئے کہ میرے دل پر بھی گویا ایک چھری چلی۔ مجھے اپنے بچوں کا خیال آیا۔
اگر ان کو عید پر نیا لباس نہ دیا جائے تو وہ پورے گھر کو سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ تو یہ اور اس طرح کے ہزاروں بچے بھی تو کسی کی اولاد ہوں گے۔ کیا ان کا حق نہیں کہ وہ بھی اس مبارک انعام میں سے اپنا حصہ وصول کر سکیں۔ یقینا ہے۔ لیکن ہم بے حس لوگ، صرف اپنے آپ میں مگن رہنے والے ، اور اپنے بارے میں ہی سوچنے والے، کب ان پر نگاہِ خیر ڈالتے ہیں۔
رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ختم ہو چکا ہو گا، جب آپ اس تحریر کو پڑھ رہے ہوں گے۔ رمضان کا مقدس ماہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ جس طرح ہم بھوک پیاس اللہ کی رضا کے لیے برداشت کرتے ہیں، اسی طرح ان لوگوں کو بھی خیال رکھنا چاہیے جن کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ ان کو بھی رمضان کے مہینے میں اپنے ساتھ شامل کرنا چاہیے۔حدیثِ پاک ۖ میں ہے۔ ” خدا کی قسم وہ شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جو خود تو پیٹ بھر کر سوئے اور اسکا پڑوسی بھوکا ہو۔ ” یہ بات تین دفعہ دہرائی۔
اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسان کا دیگر عوام کے ساتھ کس قسم کا تعلق ہے۔ یعنی ایمان کی ایک شرط قرار دی گئی ہے کہ ہمسائے کے حقوق کا خیال رکھنا گویا واجب ہے۔ پھر قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے ۔ ” اور والدین کے ساتھ احسان کرو، اور قرابت داروں کے ساتھ، اور یتیموں کے ساتھ، اور مساکین کے ساتھ اور مسافروں کے ساتھ۔۔۔۔الاخیر۔۔۔” میرے نقطہ نگاہ سے مساکین میں ہر وہ شخص شامل ہے جو حاجت مند ہے۔ بے شک حاجت روا اللہ کی پاک ذات ہے۔ لیکن وہ ان مساکین کی حاجت روائی کے لیے ہم انسانوں میں سے ہی کسی نہ کسی کو وسیلہ بناتی ہے۔تو کیوں نہ وہ وسیلہ آپ خود بنیں۔ اور نہایت آسان ہے۔ آپ دل میں صرف اس بات کی نیت رکھیں کہ آپ اپنے دل کو لوگوں کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رکھیں گے، تو اللہ پاک خود ہی آپ کے پاس اپنے مہمان بھیجیں گے یا پھر آپ کو ان کی راہ دکھائیں گے۔
Eid Shopping
یہ بات کرنے کا مقصدآپ کی توجہ اس طرف لانا ہے کہ عید کی آمد آمد ہے۔ مذکورہ بالا بچے کی طرح بہت سے بچے آپ کو گلیوں میں پھٹے پرانوں کپڑوں میں گھومتے پھرتے نظر آئیں گے جو آپ کے بچوں کو حسرت کی نگاہوں سے، آنکھوں میں مچلتے آنسوئوں سے دیکھتے ہوں گے۔ ان کے لیے اگر اور کچھ بھی نہیں کر سکتے تو ایک عدد کپڑوں کا جوڑا ہی خرید کر دے دیں۔ اپنے بچوں کے لیے آپ نے ہزاروں روپے کا جوڑے خریدیں ہوں گے، تو ان کے لیے کیا آٹھ سو ، ہزار کا ایک جوڑا نہیں خرید سکتے۔ ہر محلے میں کچھ نہ کچھ گھر تو ایسے لازمی ہوتے ہیں جو اس طرح کے کئی جوڑے اس طرح کے معصوم بچوں کو خرید کر دے سکتے ہیں۔ نہ صرف کپڑے خرید کر دیں، بلکہ اگر اور زیادہ نیکی کریں تو ان کے گھروں میں زیادہ نہ سہی، ایک وقت کا کھانا ہی بھیج دیں۔
مٹھائی بھیج دیں کہ وہ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔جب ہر اِ س طرح کے گھر سے نیکی کا یہ کام ہو گا تو میرے خیال میں اگر ہر بچے کو نہیں بھی تو ساٹھ ستر فیصد بچوں کو عید کے انعام میں سے اپنا انعام مل جائے گا۔اور نیکی تو کبھی رائیگاں نہیں جاتی، زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر آپ کے سامنے کسی دوسری صورت میں سامنے آتی ہے۔ آپ آزما کر دیکھ لیں۔ لیکن یہ بات بھی یاد رکھیں کہ نیکی کر دریا میں ڈال۔ رمضان میں ہم نے اللہ کی بے بہا نعمتیں ، رحمتیں سمیٹی ہوتی ہیں، لیکن ان پر اس وقت پانی بہا دیا جاتا ہے جب عید کا دن آتا ہے۔ پہلے تو نمازِ فجر کی ادائیگی ہی مشکل ہو جاتی ہے کہ چاند رات کی خوشی میں بازاروں میں ، چوباروں میں ہلہ گلہ کیا ہوتا ہے۔ شریعت کا ہر قانون پائوں کے نیچے روندا ہوتا ہے۔ ملعون شیطان رمضان کے دنوں کی قید کا غصہ اس ایک چاند رات میں نکال دیتا ہے۔مخلوط محفلیںجمتی ہیں۔ تویہ سب کر کے سب کیے کرائے پر پانی پھیر دیا جاتا ہے۔
ساری نیکیاں جو کمائی ہوتی ہیں وہ کھوہ کھاتے چلی جاتی ہیں۔ بے شک نیکیاں ضائع تو نہیں ہوتیں، لیکن چاند رات کو صغیرہ ، کبیرہ جتنے گناہ سرزد ہوتے ہیں وہ رمضان کے انتیس تیس دنوں پر حاوی ہوجاتے ہیں۔جب کہ اللہ پاک نے یہ عید کا دن ہمیں ہماری رمضان المبارک میں کی گئی محنت کے صلے میں انعام کے طور پر عطا کیا ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس دن روزہ رکھنے کی ممانعت ہے۔ اور اس انعام کو چیتھڑوں میں بانٹ کر اس کی بندر بانٹ کر دیتے ہیں۔اپنی اپنی خوشی میں مگن ہو کر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمسائیوں کو دو دن سے کھانا تک نصیب نہیں ہوا، چہ جائیکہ عید کیاہو گی۔
ہمیں ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ رسول پاک ۖ عید کی نماز کے لیے جا رہے تھے۔ راستے میں کچھ بچے نظر آئے جو کھیل رہے تھے۔ ایک بچہ ایک طرف کھڑا پرانے میلے سے کپڑے پہنے حسرت سے ان بچوں کو دیکھ رہا تھا۔ نبی کریم ۖپاس پہنچے ۔ اس بچے سے پوچھا کہ وہ کیوں الگ کھڑا ہے ؟ ان کے ساتھ کیوں نہیں کھیل رہا۔ اور اس نے نئے کپڑے کیوں نہیں پہنے ہوئے؟ وہ بچہ رو دیا۔ اور کہنے لگا کہ اس کے ماںباپ نہیں ہیں ، اسلیے وہ نئے کپڑے نہیں پہن سکتا۔ رسول ِ پاک ۖ جو کہ رحمة اللعلمین ہیں، اس بچے کے آنسو صاف کیے۔ اور اسے کہا کہ کیا تمھیں یہ پسند ہے کہ تمھارا باپ محمد ۖ ہو اور ماں عائشہ ہوں۔بچے کو اور کیا چاہیے تھا۔جھٹ سے حامی بھر لی۔ اسے لے کر گھر آگئے۔حضرت عائشہ سے فرمایا۔ اس کو نہلائو۔نئے کپڑے پہنائو۔ جب حضرت عائشہ نے یہ کام سر انجام دے دیے تو رسول پاک ۖ اس بچے کو اپنے کندھے مبارک پر سوار کر کے مسجد کی جانب چل دیے۔خوشی اس بچے کے چہرے سے ایسے پھوٹ رہی تھی جیسے چودھویں کا چاند چمک رہا ہو۔ تو قارئین کرام۔ ہم پورے سال میں ایک دن عید میلاد النبی ۖ کے موقع پر عشق رسول کا دعویٰ کرتے ہیں۔تو کیا عید کے دن ہم رسول پاک ۖ کی پیروی اس طریقے سے نہیں کر سکتے؟