تحریر: مجید احمد جائی اس بار بھی ماہ رمضان رخت سفر باندھ چکا۔ تیسرا عشرہ الوداع ہونے کو ہے۔ آئندہ سال نجانے کون زندہ رہے گا، کون نہیں۔ عید کی آمد آمد ہے۔ رب رحمان اپنے بندوں کو ماہ رمضان کا تحفہ عید کی صورت عطا کرتا ہے۔ خوشیاں منانے کا دن۔ محبتیں بانٹنے کا دن۔ ایک دوسرے سے گلے ملنے کا دن۔ جسے ہم چھوٹی عید اور میٹھی عید بھی کہتے ہیں۔ دیہاتی لوگ سویاں والی عید بھی کہتے ہیں۔
عید والے دن نئے کپڑے ،نئے جوتے پہنے جاتے ہیں۔اہل مسلم کا ہر چھوٹا بڑا عید کی خوشیاں مناتا ہے۔مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں۔محبتیں پھیلاتے ہیں، ایک دوسرے کے گھر جا کر عید کی مبارک باد دیتے ہیں۔جس سے محبت کو فروغ ملتا ہے اور نفرتیں ناپید ہوتی ہیں۔لیکن۔۔۔۔۔۔لیکن پچھلے چند سالوں سے ہماری عیدیں پھیکی پھیکی سی ہو گئی ہیں۔ہماری خوشیوں میں نفرتوں کا زہر گھول دیا گیا ہے۔ہمارے اپنوں میں دشمنوں نے نفرت کی آگ بھڑکا دی ہے۔دہشت کا بازار گرم ہے۔انسان ہی انسان کو کاٹنے لگ گیا ہے۔
Eid Mubarak
2005سے لے کر اب تک کوئی عید ،کوئی تہوار ہم نے خوشی سے نہیں منایا۔ہماری خوشیاں کہیں گم ہو کر رہ گئی ہیں۔ہماری خوشیوں کودیمک چاٹ گئی ہے۔ہماری مسکراہٹیں چھین لی گئی ہیں۔ہماری رگوں میں نفرتوں کے جراثیم گردش کر رہے ہیں۔ہمارے قہقہے ختم ہو گئے ہیں۔چہرے اداسی کا لبادہ اوڑھ چکے ہیں۔۔آنکھیں پتھرا سی گئیں۔پائوں ڈگمگا گئے ہیں۔کبھی دشمنوں کی بھنیٹ چڑھ جاتے ہیں تو کبھی اپنوں کے ستم خون کے آنسو رولا دیتے ہیں۔کبھی زلزلے،کبھی بارشیں، کبھی طوفان اور کبھی گرمی ،حبس سے اپنے پیاروںکو کھو رہے ہیں۔بچے یتیم ہو رہے ہیں۔دلہنیں بیوہ ہو رہی ہیں،سہاگ اجڑ رہے ہیں،سہاگ اُجاڑے جا رہے ہیں۔
ایک ڈر سا ہے،ہر چہرہ اُداس ہے،لب پیاس سے خشک ہیں،پانی کی قلت سے بچے مر رہے ہیں۔پائوں ابلہ پا ہیں۔مہنگائی نے کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔غریب اپنے بچے فروخت کر رہا ہے اور امیر وں کو دولت کی لت لگ گئی ہے۔غریبی ،امیری کے تضاد نے انسان کو بے حس کر دیا ہے۔جدید انسان رحمانی راستے سے بھٹک کر شیطانی راہوں پر چل نکلا ہے۔افراتفری کا عالم ہے،لوٹ کھسوٹ،رشوت خوری،ملاوٹ عروج پر ہے۔ہر طرف نفرت کی فضا قائم ہے۔بازار سنسان،مسجدیں ویران ہیں۔کہیں دھماکے تو کہیں خود کش حملے ہو رہے ہیں۔سڑکیں خون سے سرخ ہو گئیں ہیں۔کندھے لاشے اٹھا اٹھا کر تھک سے گئے ہیں۔دل مخموم ہے ،آنکھیں آنسو بہا بہا کر خشک ہو گئی ہیں۔
کبھی پانی بے قابو ہو کر ہمیں تہس نہس کرنے لگتا ہے ،کبھی طوفان ہماری جھونپڑیاں تنکا تنکا کرتا جاتا ہے۔ہماری بستیاں زمین بوس ہو جاتی ہیں۔اپنے ہی اپنوں کے گریبان پکڑے کھڑے ہیں۔کہیں مُردے دفنانے پہ جھگڑے ہو رہے ہیں تو کہیں مُردے نہلانے پر تلواریں نکل آتی ہیں۔کہیں شوہر بیوی کو بیٹیاں پیدا کرنے کی پاداش میں قتل کر رہا ہے،کہیں اولادیں نافرمان ہو کر والدین کو گھر سے بے دخل کر رہی ہیں۔جدید ٹیکنالوجی حاصل کر کے بھی ہم دور جاہلیت میں کھڑے ہیں۔
Eid al-Fitr
مسجدوں میں قرآن گِرد آلودہ ہو چکے ہیں او ر گھروں میں خیر و برکت کے لئے شلفوں میں رکھے ہوئے ہیں۔نا چ گانے صبح و شام ہو رہے ہیں۔فرض ادا نہیں کرتے اور سنتوں کے لئے تلواریں نکالے کھڑے ہیں۔ہمارے علماء ممبروں پر بیٹھ کر تبلغ کرنے کی بجائے نفرت ،شر پھیلا رہے ہیں،فرقہ واریت کی فضا پیدا کر رہے ہیں۔ایک دوسرے پر کافر ہونے کے فتوے جاری ہو رہے ہیں۔شعور و آگہی کی بلندیوں کو چھونے کے بعد بھی ہم جاہل کے جاہل ہیں۔ ہم دوسروں میں عیب تلاش کرتے پھرتے ہیں اوراپنے عیبوں پر پردہ ڈال رہے ہیں۔دوسروں کے گریبان پکڑ رہے ہیں اور اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔اُنھیں ذلیل کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ایسے عالم میں کون عید منائے گا۔امیری غریبی کے تضاد میں کس کو خبر ہو گی کہ کون عید کیسے منا رہا ہے۔افراتفری کے عالم میں کوئی خوشیاں منا رہا ہوگا تو کوئی قربان ہو رہا ہوگا۔کوئی خوشیوں کی محفلوں میں گم ہو گا،شراب و شباب کے نشے میں دھت ہو گا تو کوئی ماتم کناں ہو گا۔
سچ پوچھو تو میںنے 2005سے کوئی عید نہیں منائی،ابھی زلزلے میں ہلاک ہونے کے غم سے نہیں نکلے تھے کہ دھماکوں نے دہشت پھیلا دی۔پشاور میں اسکول میں دہشت گردوں کے حملے سے ہمارے مستقبل کے معمار شہید ہو گئے۔سیلاب نے ہزاروں جانوں کو نگِل لیا۔پھر اس بار کراچی میں سینکڑوں جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا،ابھی اسی غم میں تھے کہ گوجرانوالہ میں ریلوے حادثے نے خون کے آنسو رولا دئے۔کئی ہمارے بہادر نوجوان شہید ہو گئے۔ان کے لواحقین کیسے عید منا پائیں گے۔جن کے پیارے بچھڑ گئے وہ کیا خوشیاں منائیں گے۔اور اب پنجاب میں خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں،سیلاب کی پیشگوئیاں ہو رہی ہیں،اب سابقہ زخم مندمل نہیں ہوئے۔
دریائے چناب اور سندھ کے بندٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور پانی بے قابو ہو رہا ہے۔نااہل لوگوں کی سزائیں غریب ،لاچار ،بے بس لوگوں کو بھگتنی پڑے گی،کتنے یتیم ہوں گے،کتنے دلہنیں پانی میں بہہ جائیں گی،ہم تو کشتی والا حادثہ نہیں بھول پائے ،باراتی ڈوب گئے،دولہا ڈوب گیا،وہ چہرہ نہیںبُھول پائے جس کا سہاگ سیلاب نے چھین لیا۔اب نجانے کتنی دلہنیوں کا نذرانہ دینا پڑے گا،ان حالات میں بھلا کون عید منائے گا،کوئی بھی نہیں،کوئی بھی نہیں۔