ماہ رمضان اپنی رحمتیں، برکتیں بانٹتا ہوا گزر تا جا رہا ہے اور اب عید کی آمد آمد ہے۔ دنیا میں عید کے معنی خوشی کے دن کے لیے جاتے ہیں لیکن آسمان(عرش) پر عید سے مراد انعام کے دن کے ہیں۔ یہ خوشی اور انعام اُن کے لیے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں رمضان المبارک کے مقدس مہینے کو پایا ہے۔ اس کا احترام کرتے ہوئے اپنے نفس پر قابو رکھا بُرے کاموں سے بچا رکھا۔ رمضان کے تمام روزے رکھے عبادات کیں اور عید کی رات (چاند رات) جب اللہ تعالیٰ فرشتوں سے اپنے بندوں کہ اعمال نامے مانگے گا پھر اُن کی عبادات، روزے قبول ہو جائیں یہ عید کا دن اُن کے لیے باعث مسرت اور انعام کا دن ہے کیونکہ وہ پہلے عشرے میں رحمت، دوسرے میں مغفرت اور تیسرے عشرے میں دوزخ سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اب وہ واقعی ہی خوشی منانے کے لائق ہیں۔ ایک واقعہ اسی حوالے سے نقل کرتا جاوں کہ حضرت وہب بن منبہ کو عید کے دن روتے ہو ئے دیکھ کر کسی نے پوچھا یہ تو خوشی اور زینت کا دن ہے حضرت وہب بن منبہ نے فرمایا بے شک یہ خوشی کا دن ہے۔
لیکن اُن کیلئے جنہوں نے روزے رکھے عبادات کی اور ان کے روزے عبادات اللہ نے قبول کر لی ہوں۔ اس واقعہ سے مزید اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ عید کا دن بے شک خوشی کا دن ہے لیکن صرف اُن کے لیے جو اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہوں۔ لیکن ہمارے ہاں سب عید کی خوشیاں خوب مناتے ہیں چاہے روزے رکھیں یا نہیں دیگر عبادات کریں یا نہیں رمضان المبارک مہینے کا احترام کریں یا نہیں۔ رمضان شروع ہو تا جائے اور عید کی تیاریاں شروع ہو جا تی ہیں جو چاند رات تک مکمل نہیں ہو تیں۔ ہر شخص عید پر خوشی میںنئے کپڑے ،نئے جوتے اور اچھے اچھے کھانے بناتے اور کھاتے ہیں۔ جو ان کی خوشی کا سب سے بڑا حصہ ہو تا ہے اس کے علاوہ پکنک کے لیے جانا یا دیگر رشتہ داروں عزیزوں، دوست احباب سے ملاقاتوں اور رنگین محفلیں ان کی خوشی کا پارٹ ٹو ہوتا ہے۔
خوشی کا ہرگز اب یہ مطلب نہیں بنتا کہ جو دل چاہے وہ کریں خدا کو بھول جائیں اور ساتھ ہی ساتھ ان غریبوں، مفلسوں کو بھی بھول جائیں جو عید کی خوشیوں میں شامل نہیں ہو سکتے۔ عیدالفطر کا یہ تہوار وسیع پیمانے پر اخوت، بھائی چارے کا درس بھی دیتا ہے۔ خیر خواہی کا یہ عالم ہے کہ اللہ نے حکم دیا کہ عید کی نماز پڑھنے سے پہلے گھر کے سبھی افراد کی طرف سے صدقتہ الفطر ادا کرے تاکہ غریب بھی اپنی ضروریات پوری کرے اور عید کی خوشیوں میں شامل ہو سکے۔ اگر عید کی مسرتوں میں ہمسایہ، غریب نادار افراد، یتیم بچوں کی فریادیں ہمارے دل ودماغ کو اگر متاثر نہ کرسکیں تو یہ ہماری خوشیاں درحقیقت ہمارے ضمیر پر بوجھ ہوں گی۔ ایک دفعہ حضرت علی کو لوگ خلافت کے زمانے میں عید کی مبارک دینے گئے تو دیکھا کے سوکھے ٹکڑے کھا رہے ہیں۔
HAzrat Ali (R.A)
آنے والے شخص نے کہا حضرت! آج تو عید کا دن ہے یہ سن کر خضرت علی نے سرد آہ بھری اور فرمایا ؛جب دنیا میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جن کو یہ ٹکڑے بھی میسر نہیں تو ہمیں عید منانے کا کیوں حق حاصل ہے۔ پھر فرمایا عید تو ان کی ہے جو عذاب آخرت اور مرنے کے بعد کی سزا سے چھٹکارا پاچکے ہیں۔ اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اپنی خوشی میں غریب، مسکین لوگوں کو ہرگز نہیں بھولنا چاہیے اپنی خوشیوں میں ان کو شریک کرنا سعادت ہے۔ بیوائوں اور یتیم بچوں کو خوشیاں بانٹنا عبادت ہے۔ ہمارے پاکستان غریبوں، مسکینوں، یتیموں اور بیوائوں کی خدمت کی بات دور کی سب کو بس اپنی پڑ جاتی ہے۔ جہاں عید کی خوشی رمضان کے شروع میں ہی محسوس ہوتی ہے تو ہر شخص کو اپنے کپڑے، جوتے، اچھے اچھے کھانے پکانے کے اخراجات کی اور پھر بچوں کو عیدی دینے کی بھی پر یشانی لگ جاتی ہے کہ یہ اخراجات کب کیسے پورے ہوں گے۔
اس کے لیے ہر شخص آمد رمضان سے ہاتھ پائوں مارنے جستجو کرنی شروع کر دیتا ہے ۔ ایک مزدور شخص مزید کام کر کے محنت کر کے اور اپنے اخراجات کو محدود کر کے عید کے لیے اپنی آمدن بڑھتا ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں ایک طبقہ ایسا بھی جو بغیر کسی محنت کے اپنی آمدن بہت آسانی سے بڑھا لیتا ہے جیسا کہ پولیس والے اپنے مورچے میرا مطلب ناکے سنبھال لیتے ہیں جہاں ہر آنے جا نے والے آدمیوں سے ناجائز پیسے ہتھیائے جاتے ہیں اور بعض اوقات واضح الفاظ میں عیدی مانگی جاتی۔ اس کے علاوہ ائیر پورٹ پر بھی بیرون ملک سے پا کستان آنے والے افراد سے بھی بہت سے طریقوں سے ا ن کی جیب ہلکی کروالی جاتی ہیں۔ چیکنگ کے نام پر ائیر پورٹ پرلوگوں سے کاغذات مانگے جاتے ہیں جن کو وصول کرنے کے بعد چیکنگ کرنے والا اہلکار منظر سے غائب ہو جاتا جس کے بعد ایک شخص جس کے کاغذات واپس نہ ملیں وہ پریشان ہونے کے علاوہ کر بھی کیا سکتا ہے۔
اہلکار کا پیچھا کرنے اور شکایت کرنے بعد اُس شخص کچھ روپے مانگے جاتے ہیں جس کے بعد ان کو کاغذات واپس کیے جاتے ہیں۔ اس ہی طرح ہمارے اندروں ملک ٹرانسپوٹر ز کو دیکھ لیں جہاں عید قریب آئی کرایہ جات اپنی من مرضی کے وصول کرنے شروع کر دیتے ہیں۔ ان کرایوں میں اضافہ عید سے تین چار دن پہلے کیا جاتا ہے لیکن عید سے ایک دن پہلے کرایہ اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ جاتا ہے ۔کرایہ ڈبل سے بھی زیادہ وصول کیا جاتا ہے۔ جو ایک عیدکی آمد کی کرامات ہیں اس طرح سارا بوجھ صرف غریب آدمی پر پڑتا ہے جو اپنا گائوں چھوڑ کر کہیں اور رزق کے حصول کے لیے دوسرے شہر میں گیا ہو تا ہے۔ ایسے اقدامات ہماری پاکستان میں ہی ہیں جہاں عید جیسے مذہبی تہوار لوگوں کو طرح طرح کے بہا نوں سے لوٹا جاتا ہے۔
انگلینڈ میں کرسمس جو کہ ان کا مذہبی تہوار ہے کے موقع پر عوام کے لیے ٹرانسپوٹ فری کر دی جاتی ہے۔ جس سے عام آدمی کو برائے راست فائدہ پہنچتا ہے ہماری حکومت ٹرانسپورٹ فری نہیں کر سکتی تو نہ کرے ناکہ ختم نہیں کرسکتی نہ کرے ائیر پورٹ کی چیکنگ ختم نہیں کرسکتی نہ کرے مگر ان لیٹروں کے خلاف ایکشن تو لینا چاہیے جو رمضان جیسے بابرکت مہینے اور عید جیسے مذہبی تہوارکی آمد پر لوگوں کو لوٹ کر اپنی خوشیاں دوبالا کرنے کی دھن میں مصروف ہیں۔