اسلام آباد (جیوڈیسک) ضلع خوشاب سے تعلق رکھنے والے ملک شاہ جہاں پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر بھرپور جوش و خروش سے اپنے خاندان کو طاہر القادری کا “انقلاب” لانے کے لیے لے کر آئے۔ مگر اب وہ اچانک ہی بیمار نظر آنے لگے ہیں۔
ان کا کہنا ہے” ایسا نظر آتا ہے کہ میں عیدالاضحیٰ بھی شارع دستور پر گزارنا پڑے گی کیونکہ عوامی تحریک کی قیادت اور حکومت کے درمیان بات چیت میں کوئی پیشرفت نظر نہیں آرہی”۔ مگر ان کی حقیقی فکرمندی سیاسی نہیں مذہبی وجہ سے ہے، عید قربان “انقلاب” سے پہلے آجائے گی اور وہ خود کو روایتی طریقے سے قربانی نہ دینے پر خود کو مجرم محسوس کر رہے ہیں۔
انچاس سالہ شاہ جہاں مضبوط مذہبی پس منظر رکھتےہ یں اورگزشتہ بیس سال سے اپنے خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے ایک جانور کی قربانی دیتے آرہے ہیں”میں ہمیشہ عید سے ایک ماہ قبل ایک بکرا لے آتا ہوں مگر یہاں بیٹھے رہنے کے باعث اس بار مجھے یہ ممکن نظر نہیں آتا”۔
احمد حیات بلوچ اپنے خاندان کے ہمراہ دھرنے میں شریک ہیں اور وہ بھی اسی مشکل کا شکار ہے مگر وہ اس مذہبی فریضے کے لیے اپنے گھر ڈیرہ غازی خان واپس جانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے”ہم ڈی جی خان کے رہائشی ہیں، اگرچہ شہر کے رہائشیون کے لیے قربانی کے جانوروں کو گھر میں رکھنا مشکل ہوتا ہے مگر میں انہیں عید سے ایک ماہ گھر لاکر کھلانا پلانا پسند کرتا ہوں”۔
انہیں نہیں لگتا کہ دھرنے کے شرکا عید سے قبل گھر واپس جاسکیں گے اور وہ حکومت کو اس کا الزام دیتے ہیں” ایسا لگتا ہے کہ حکومت بحران کے خاتمے کے لیے سنجیدہ نہیں، یہ بدقسمتی ہے کہ حکومت دھرنے کے شرکاءکی مشکلات سے لاپروا نظر آتی ہے جو دن بدن بڑھتی جارہی ہیں”۔
یہاں تک کہ اگر کچھ غیرمتوقع ہوبھی جاتا ہے تو بھی وہ کہتے ہیں”عید کے قریب کیا بہت زیادہ مہنگے جانور کو خریدنا آسان ہوگا؟۔ منیب بھٹی ضلع فیصل آباد سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے بقول اگر سیاسی بحران برقرار رہتا ہے تو” عید کے روز دھرنے میں رکنا آسان نہیں ہوگیا”۔
انہوں نے کہا”میں ڈاکٹر طاہر القادری پر یقین رکھتا ہوں جو موجود نظام میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں مگر میرے لیے اپنے بچوں کو مایوس کرنا بہت مشکل ہے جو چاہتے ہیں کہ میں جلد از جلد گھر پہنچ جاﺅں”۔ منیب کا کہنا تھا”میرے بچے چاہتے ہین کہ میں عید پر قربانی کے لیے ایک بکرا لے کر آﺅں، جبکہ ان دوسرا مطالبہ نئے کپڑے اور جوتوں کا ہے جسے پورا کرنا آسان ہے” دھرنے کے بیشتر شرکا اس خیال سے الجھن کا شکار ہیں کہ انہیں عید جیسا خوشی کا تہوار”سڑک” پر اپنے بچوں کے ساتھ گزارنا پڑے گا۔