تحریر: علامہ سید ساجد علی نقوی عید الاضحی کا تذکرہ خدا کے خاص بندگان اور پیغمبران حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی قربانی کے ساتھ منسلک’ مربوط اور مشروط ہو چکا ہے۔ عید الاضحی کا بنیادی فلسفہ ہی قربانی’ ایثار ‘ خلوص اور راہ خدا میں اپنی عزیز ترین چیز نچھاور کر دینا ہے۔ اگر عید الاضحی سے قربانی کا تصور اور فلسفہ نکال دیا جائے تو پھر عید الاضحی کا مفہوم بے معنی ہو جاتا ہے۔
یہ بات ہمارے مدنظر رہنا چاہیے کہ حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل نے اطاعت خداوندی میں حکم خدا اور رضائے خدا کو انجام دیتے ہوئے قربانی دی اس کے پس پشت میں ان کے ذاتی مفادات یا خواہشات نہیں تھے۔ نہ ہی وہ کسی نمود و نمائش کے لئے خود کو قربان کررہے تھے۔ بلکہ ان کا مطمع نظر صرف اور صرف خوشنودی خدا کا حصول تھا۔ چونکہ یہ عمل خدا کے احکام اور اس کی منشا کے مطابق انجام پایا اس لئے اس کا ہدف اور نتیجہ دونوں اعلی و ارفع ٹھہرے۔
انبیاء کرام کی یہ قربانی انسانیت کے لئے روشن مثال اور مسلمین کے لئے اطاعت و ایثار کا ایک حسین نمونہ ہے۔ لیکن اس قربانی کے اہداف کا شعور رکھ کر اس پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ سنت ابراہیمی و اسماعیلی کو پورا کرنے کے لئے فقط جانوروں کی قربانی ضروری نہیں بلکہ اپنے مفادات’ ذاتی خواہشات’ غلطیوں ‘ کوتاہیوں اور خطائوں کی قربانی ضروری ہے کیونکہ بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے یہ کہ خدا کے حضور ہمارے قربان کردہ جانور کا گوشت پوست اور خون نہیں پہنچتا بلکہ ہمارا ہدف’ ہماری نیت’ ہمارا ایثار’ ہمارا خلوص اور ہمارا جذبہ پیش ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں اس جانب اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے کہ ہم کتنے اخلاص اور ایثار کے ساتھ یہ قربانی پیش کر رہے ہیں۔
Eid Ul Adha Qurbani
جانور کی قربانی ایک علامت ہے اور اس بات کے عہد کا درس ہے کہ اگر ہمیں خدا کی راہ میں اپنے آپ کو یا اپنی اولاد کو پیش کرنا پڑے اور خدا کے احکامات کی پیروی اور خدا کے نظام کے استحکام کے لئے ہمیں عزیز ترین چیز بھی قربان کرنے کا مرحلہ درپیش ہو تو ہم اطاعت خداوندی میں قطعاً گریز نہیں کریں گے۔
بلکہ نیک نیتی اور خلوص دل کے ساتھ یہ قربانی پیش کردیں گے جان کی قربانی سے قبل بھی بہت ساری ایسی چیزیں ہیں کہ جنہیں قربانی کرکے انسان خدا کی اطاعت کے تقاضے پورے کرسکتا ہے۔ اس میں دین کے استحکام و ترویج کے لئے مال کی قربانی’ دین کی صحیح تصویر پیش کرنے کے لئے غلط نظریات کی قربانی’ اسلام کی بہترین شناخت کے لئے غلط رسومات اور منفی عقائد کی قربانی’ اشاعت اسلام کے لئے تحریر وتقریر کی قربانی’ ترویج دین کے لئے وقت کی قربانی’ مسلکی اور فروعی اختلافات کی قربانی’ لسانی و علاقائی تعصبات کی قربانی شامل ہیں۔
اگرچہ عالم اسلام میں اس وقت قربانی کا جذبہ ایک حد تک موجود ہے جس کے مظاہر اکثر اوقات دیکھنے کو ملتے ہیں مثلاً مسئلہ کشمیر’ غزہ پر حالیہ اسرائیلی مظالم’ قبلہ اول کی آزادی’ ناموس رسالت ۖ اور گذشتہ سالوں کے خوفناک زلزلے اور حالیہ ہولناک سیلاب کی تباہ کاریوں پر اسلامیان پاکستان میں قربانی کا جذبہ دیکھنے کو ملا لیکن اس جذبے کو مزید طاقتور اور منظم ہونا چاہیے۔
عید الاضحی کے بابرکت موقع پر ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ حضرت اسماعیل کی قربانی سے الہام لیتے ہوئے عالم اسلام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے ایک راہ عمل کا تعین کریں۔ امت مسلمہ کے اتحاد اور ترقی میں رکاوٹ بننے والے عوامل’ بحرانوں’ چیلنجز اور مشکلات کے خاتمے کے لئے اقدامات کریں۔
Pakistan
اپنی خوشیوں میں اپنے لبنانی’ فلسطینی’ کشمیری’ عراقی بھائیوں اور گذشتہ سال زلزلے کے نتیجے میں متاثر ہونے والے پاکستانی بھائیوں کو بھی یاد رکھیں۔ دنیا کے تمام محکوم و مظلوم طبقات اور استحصال زدہ عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے جاری جدوجہد کی حمایت کریں۔ پاکستان میں اسلام کے عادلانہ نظام کے قیام کے لئے سرگرم قوتوں کی پشت پناہی کریں۔ پاکستان میں عدل اور قانون کے نفاذ’ آئین کی بالادستی اور صحیح اسلامی اقدار کے فروغ کے لئے کوشش کریں۔ پاکستان کے تمام معاشرتی مسائل کرپشن’ رشوت’ مہنگائی’ غربت ‘ جہالت’ فحاشی و عریانی’ فرقہ وارانہ دہشت گردی’ مسلکی’ لسانی’ فروعی اور گروہی اختلافات و تنازعات اور دیگر سماجی برائیوں کے خاتمے کے لئے اپنی توانائیاں صرف کریں اور پاکستان کو ایک اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کی جدوجہد کریں۔