تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم رمضان المبارک جو کہ رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہوتا ہے اس کے بعد شوال کا مہینہ آتا ہے اور یکم شوال کو مسلمانان عالم عیدالفطر مناتے ہیں ہجری سال اور اسلامی کیلنڈر میں دسواں مہینہ شوال المکرم ہے۔”عید ”کا لفظ عود سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی باربار آنا، مسلمانوں کے جشن کاروزاور نہایت خوشی کے ہیں یہ ماہِ مبارک نفسانی خواہشات کی قربانی سے عبارت ہے۔
اللہ بزرگ و برتر کی حکمت دیکھئے پہلے شعبان پھر رمضان اور پھر شوال کا مہینہ آتا ہے سبھی خوشیوں ،مسرتوں، رحمتوںبھرے مہینے ہیںشعبان میں شب برات اور رمضان میں شب قدربڑی فضیلت اور رحمتوں والی راتیں ہیں عید الفطر شوال کی یکم تاریح کو ہوتی ہے اس عید کو چھوٹی عید اور میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے اور اس روز دنیا بھر کے مسلمان انتہائی جوش وخروش سے عید کی خوشیوں میں مشغول ہوتے ہیںحضور نبی کریم ۖنے پہلی مرتبہ 2 ہجری میں عید الفطر کی نماز ادا کی، یہ نماز دو رکعت نفل سنت موکدہ ہے عیدالفطر کی نماز سے پہلے فطرانہ دینا نہایت ضروری ہوتاہیشوال کا پہلا دن اور اس کی پہلی تاریخ اللہ تعالیٰ کی میزبانی اور روزے داروں اور عبادت گزار بندوں کی مسرت و شادمانی اور اکرام کا دن ہے۔
سیدنا ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عیدالفطر کے دن ایک صاع کھانا (محتاجوں کو) دیا کرتے تھے اور ہمارا کھانا ” جو، خشک انگور، پنیر اور کھجور” تھا۔(مختصر صحیح بخاری حدیث نمبر : 767)۔ صدقہ فطر، آزاد اور غلام دونوں پر واجب قرار دیا گیا ہے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صدقہ فطر، ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مسلمان مرد، عورت اور آزاد اور غلام سب پر فرض کر دیا ہے۔(مختصر صحیح بخاریحدیث نمبر : 768)۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے ارشاد فرمایا جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد ٦(نفل)روزے شوال کے مہینے میں رکھے تو اسے پورے سال کے روزے رکھنے کا ثواب ہوگا اگر ہمیشہ ایسا ہی کرے گا تو گویا اس نے ساری عمر روزے رکھے (ترمذی٤٩/١)۔ جس طرح عیدالفطر کی نماز سے پہلے فطرانہ ادا کرنا ضروری ہے اسی طرح نماز عید سے قبل کچھ کھا کر جانا بھی ضروری ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے روز دن چڑھنے دیتے تھے یہاں تک کہ چند کھجوریں کھا لیتے (یعنی نمازعید سے پہلے)۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طاق کھجوریں کھاتے تھے”۔(مختصر صحیح بخاری حدیث نمبر : 528)۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمدۖ نے ارشاد فرمایا جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے ٦ روزے رکھے وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہوگیا جیسے نومولود بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے وقت (گناہوں سے) پاک ہوتا ہے۔
Muhammad S.A.W
حضرت انس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ” عید الفطر کے دن جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چند کھجوریں نہ کھا لیتے عید گاہ تشریف نہ لے جاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم طاق کھجوریں تناول کرنا پسند کرتے تھے ”۔ حضور نبی کریم ۖنے ارشاد فرمایا ” جب عید الفطر کی رات آتی ہے تو فرشتے آپس میں خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور اللہ تعالی اپنے خاص انواروتجلیات کا ظہور فرما کر فرشتوںسے پوچھتا ہے فرشتو!اب اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جس نے پورا پورا کام کیا فرشتے عرض کرتے ہیں اے اللہ اس کو پورا پورا ثواب دیا جانا چاہئے ،اس پر اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے تم گواہ بن جائومیں نے ان سب کو بخش دیا جن لوگوں نے رمضان کا احترام کیا دن کو روزے رکھے اور رات کو قیام کیا۔
حضرت وہب روایت کرتے ہیں کہ۔”ہر عید کے روز ابلیس (شیطان) چیخ چیخ کر روتا ہے تو دوسرے شیاطین اس کے گرد اکٹھے ہو کر پوچھتے ہیں اے ہمارے آقا کیوں روتے ہو تو وہ کہتا ہے اس روز حضرت محمدۖ کی امت کو اللہ تعالی معاف کر دیتا ہے لہذا اب تم پر لازم ہے کہ انہیں شہوات و لذات میں ڈال کر غافل کر دو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہا سے ایک اور جگہ روایت ہے آقا جی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” رمضان المبارک میں جن لوگوں نے روزے رکھے ہوتے ہیں انہیں اللہ تعالی تمام نعمتیں بخشتا ہے اور پوراپورا اجر دیتا ہے اور عیدالفطر کے دن صبح کے وقت اللہ تعالی فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ تم زمین پر جائو فرشتے حکم کی بجا آوری لاتے ہوئے زمین پہ اترتے ہیں اور راستوں پر عام مجمعوں ،چراہوں اور بازاروں میں بڑی اونچی آواز سے پکارتے ہیں کہ اس کو تمام مخلوق سوائے جن اورانسان کے سن لیتی ہے اور کہتے ہیں اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت تم اپنے پروردگار کی طرف نکلو کہ وہ تمہاری کم قیمت متاع کے عوض میں تمیں بہت بڑی عطا فرمانے کو ہے اور کبیرہ گناہوں کو بخشنے والا ہے۔
پس جب آدمی نماز کے لئے نکلتے ہیں اور نماز پڑھنے کے بعد دعا کرتے ہیں تو اس وقت رب کائنات اپنے بندوں کی تمام حاجات اور مرادیں پوری کرتا ہے جو سوال کرتے ہیں وہ قبول ہوجاتا ہے کوئی گناہ باقی نہیں رہتا سب گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور وہ بخشے ہوئے لوٹ جاتے ہیں ” (حوالہ غنیتہ الطالبین)۔ حضرت وہب بن عنہ کہتے ہیں کہ ”اللہ تعالی نے جنت کو عید الفطر کے روز پیدا کیا اور طوبی کا درخت بھی عید ہی کے روز بہشت میں لگایاگیا حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھی عید کے دن وحی پہنچانے کے لئے منتخب کیا گیا” حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں عید کے دن اپنے گھر تشریف فرماتھے کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آپ کو عید کی مبارک باد دینے کے لئے گھر آگئے تو دیکھا حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ زار و قطار رو رہے تھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے آپ سے رونے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے یوں جواب دیا۔
آج کا روزعید بھی ہے وعید بھی آج جس کے روزے اور نمازیں قبول و منظور کر لی گئیں اس کے لئے تو عید ہے جبکہ میںاس لئے رو رہا ہوں کیا خبر میرے روزے اور نمازیں منظور ہوئیں یا نامنظور”۔ حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ ” عیدالفطر کے دن روزہ نہ رکھو بلکہ خوب کھائو پیو” عیدسعید کے روز اپنی خوشیوں اور مسرتوں میں اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ ساتھ غریب اور مستحق لوگوں کو بھی شامل کریں انہیں بھی تحائف دیں ان کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھیں انہیں بھی گلے لگائیں شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ عید کا دن ہے گلے ہم کو لگا کر ملئے رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے مشاہدے کی بات ہے انسان کے حالات بدلتے وقت نہیں لگتا جو امیر ہوتے ہیں انہیں غریبی کی پستی میں دیکھا گیا اور جودو وقت میں روٹی کے ایک نوالے کو ترستے ہیں انہیں بام ثریا پہ چمکتا بھی دیکھا گیا ہے حالات کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے عزت اور ذلت رب کائنات کے ہاتھ میںہے مادہ پرستی اور نفسانفسی کے اس دور میں اپنے لئے تو ہر شخص جی رہا ہے بلکہ اپنی بساط سے بڑھ کر اپنے لئے جینے کا سامان پیدا کئے ہوئے ہے لیکن جن کے پاس اپنے من کی پیاس بجھانے کے لئے روٹی ،تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا نہیں اور سرچھپانے کے لئے چھت نہیں انہیں بھی اپنی خوشیوں میں برابر کا شریک بنا کر رب کائنات کے حضور سرخرو ہونا چاہئے۔