عید اب کی بار

Eid Mubarak

Eid Mubarak

تحریر: شاہ بانو میر
عید قریب ہے ہمیشہ کی طرح اس تہوار کا پرجوش انداز میں استقبال کرنے کی تیاریاں گھر گھر ہو رہی ہیں کہیں صفائیاں ہو رہی ہیں تو کہیں عبادات کے ساتھ ساتھ اس دن کیلئے پکوان سوچے جا رہے ہیں ـ نت نئے ملبوسات پاکستان سے منگوائے جا رہے ہوں گے نیٹ پر آرڈر کر کے منگوائے جا رہے ہوں گے ـ شادی شدہ بیٹیوں کی عیدیں جا رہی ہوں گی ـ منسوب ہوئی بچیوں کی عیدیں آ رہی ہوں گی ـ اور کہیں عید ملن پارٹیز کی صورت جشن منانے کی بھرپور تیاریاں شروع ہو چکی ہوں گی ـ بڑوں کی اور سوچیں ہیں اس تہوار کیلئے اور بچوں کو پردیس میں رہ کر بھی یاد ہے کہ انہیں پیسے ملنے ہیں ـ وہ بھی منتظر ہیں بچّے؟؟؟ یہیں سانس جیسے رک سی جاتی ہے سامنے وہ 143 معصوم بچے آگئے جن کی مائیں اس سال ان کے بغیر کیسے آہوں سسکیوں کے ساتھ تازہ ہو کر رِستے زخموں کی ٹیسوں سے پھر ویسے ہی تڑپ تڑپ کر روئیں گی جیسے اس دن روئیں جس دن ان کے لعل ان سے ظالمانہ کاروائی بزدلانہ انداز میں چھین لئے گئےـ

افسوس اتنا بڑا سانحہ جس نے دنیا کو ہِلا دیا لیکن ہمارے لئے چند روزہ سوگ کے بعد یہ معمول کا واقعہ بن گیا ـ حکومت وقت ذمہ دار ہوتی ہے ـ ماحول کی عوامی سوچ کی اور اندازِ فکر کی یہاں حکمران خواہ صوبائی ہوں یا وفاقی وہ یوں اقتدار کی رسہ کشی میں الجھے ہوئے ہیں کہ بچوں کی جان ان کی ناقص حفاظتی انتظامات کی وجہ سے گئی ـ اس بات کو سنجیدگی سے لے کر اس حادثے کو بنیاد بنا کر ان بچوں کیلیۓ کم سے کم ایک سال کیلیۓ تو کوئی ایسا منصوبہ بنایا جاتا کہ ان کے لواحقین کو صبر آجاتا کہ اس ملک کی سلامتی میں ننھے مجاہدوں کی قربانی کا کچھ اثر موجود ہے ـ مگر ایسا نہیں کیا گیا میڈیا ایک بازار کا سماں پیش کر رہا ہے ریٹنگ اور ریٹنگ بچوں کے حادثے کو بار بار اس لئے دکھایا کہ ریٹنگ بڑھے بغیر جذبات کے بغیر تاثر کے یہ کیسا ملک اور کیسے ادارے ہم نے بنا دیے۔

اب عید قریب ہے مجھے ابھی سے وہ رنگینیاں اور میوزک ہلا گلا اور ہُلڑ بازی دکھائی دے رہی ہے جو طوفانِ بدتمیزی عید شو کے نام پر ہر چینل پے چلائی جائے گی ـ بغیر اس سوچ کے اور سمجھ کے کہ آج کئی گھر اپنے پیاروں کے لئے ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہوں گے جو اس ناقص نظام کا شاخسانہ ہے ـ ان کا دکھ ان ماؤں کے آنسو ان کی آہیں ذرا دیر کیلیۓ محسوس کریں ـ خُدارا میڈیا سے درخواست ہے اور تمام اُن لوگوں سے جن کی زندگی صرف ملبوسات کی نمائش اور ہار سنگھار کر کے دنیا کو دکھانے تک محدود ہے ـ موت سب کو آنی ہے کل نفس ذائقة الموت آج بھول کر ہم نجانے کس مذہب کی عکاسی کرتے ـ منافقین کم سے کم دل میں تضاد رکھتے تھے لیکن ظاہری طور پے ساتھ دیتے تھے ـ حالانکہ وہ کفار اور یہود میں سے تھے۔

Greed

Greed

افسوس آج ہم مسلمان بلکہ پاکستانی اپنی حرص و ہوس کی دنیا میں اتنے بے قابو ہو چکے کہ ماسوا ہمیں ظاہری دکھاوے کے کسی قومی کسی عوامی سانحے کی نہ فکر ہے اور خیال ہمدردی تو دور کی بات ہے ـ آج منافقین کو پیچھے چھوڑ کر فاسقین کے شمار میں کھڑے ہو گئے جو سب سے برا درجہ ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گناہوں کی غلطیوں کی سر عام نمائش کر کے بتاتے ہیں کہ ہمیں کسی کا خوف نہیں نہ انسانوں کا نہ اللہ پاک کا اور پھر یہیں سے آغاز ہوتا ہے اللہ کے قہر وغضب کا ـ ماہِ رمضان میں جس طرح سج بن کر افطار ڈنرز ہوئے دیکھ کر دل کو تکلیف ہوئی یہ ذہنی جاہل نہیں جانتے کہ جس مقدس مہینے میں روزہ نہ بھی ہو تو اس کے احترام میں کم سے کم حلیہ ویسا بنانے کا حکم ہے ـ تا کہ روزے دار کے سامنے آپ کی تازگی شگفتگی اور فیشل زدہ چہرہ اسلام کے منکرین کا تاثر پیش نہ کرے ـ ہم نے فیملیز کی طرف کئی افطار کیں لیکن کسی ایک خاتون کے چہرے پے فیس پاؤڈر تو درکنار کریم تک کا شائبہ نہیں ہوا ـ سادہ نقاہت زدہ چہرے اپنے ربّ کی سچی بندگی کا احساس لئے 17 گھنٹے کا طویل صبر آزما روزہ رکھنے والے کیسے اس مشقت کو محض اس لئے برباد کر دیں کہ ان کا چہرہ خوبصورت لگے وہ بھی نا محرموں کیلیۓ؟ روزہ ہو تو احتیاط خود بخود آجاتی ہے لیکن روزے کے نام پر اگر فوٹو سیشن ہو تو دین اور دنیا دونوں کی طرف سے ذلت و رسوائی ملتی ہے۔

ایسا ہوتا دیکھا ـ ایسا پڑھا کہیں جس نے ایک ایسی افطار پارٹی میں شمولیت اختیار کی ـ استغفراللہ خُدارا آپ ماڈرن سہی جدت پسند سہی آپ کا لباس آپ کا انداز متاثر کُن (آپکی سوچ میں ) سہی لیکن نام کی ہی سہی آپ مسلمان تو کہلاتے ہیں ؟ یہ کونسا اندازِ مسلمانی ہے؟ یہی لا علمی یہی جہالت ہمیں عید پر بتدریج نظر آئے گی سمجھ میں ایک بات نہیں آتی کہ یہ خواتین و حضرات ماں بھی ہیں باپ بھی پھر ان کو احساس سود و زیاں کیوں نہیں ہے؟ جن جن کی نگاہوں سے یہ تحریر گزرے خُدارا عید پر بے حسی کا مظاہرہ مت کیجیۓ گا تصاویر اور ملبوسات میک اپ کی بھرمار سے ان غمزدہ خاندانوں کے دل مزید دکھانے کا باعث نہ بنیں جن کے پیارے انہیں ہماری سلامتی کیلئے اپنی قربانی دے بیٹھے ـ اللہ پاک ہم سب کو اسلام قرآن و سنت کا درست مفہوم سمجھ کر اپنی زندگیوں کو اب ہی موڑ کر صراطِ مستقیم کی جانب لے جائے آمین ثم آمین آخر میں یہی کہنا ہے کہ عید اب کی بار ذرا احتیاط سے۔

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر: شاہ بانو میر