تحریر : چودھری عبدالقیوم ہجری کیلنڈر کے آخری یعنی بارہویں مہینے ذی الحج کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے اس مہینے میں مسلمان فریضہ حج کی سعادت حاصل کرتے ہیںذی الحج کی دس تاریخ کو اہل اسلام آقائے دوجہان رحمت العالمینۖ کے جد امجد سیدنا خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد مناتے ہوئے بارگاہ خداوندی میں قربانی پیش کرتے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ قربانی اپنے ایک خواب کیمطابق دی تھی جس میں انھیں اپنے رب کیطرف سے حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی راہ میں اپنی سب سے زیادہ قیمتی چیز کی قربانی دیں چنانچہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے اپنے صاحبزادے ذبیح اللہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی پیش کی جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں آج تک نہیں ملتی یہ بڑی اہم اور دلچسپ بات ہے کہ اسلامی سال کا آغاز اور اختتام بھی قربانی سے ہوتا ہے ہجری سال کے پہلے مہینے محرم الحرام کی دس تاریخ کو نواسہ رسول حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام نے بھی اللہ کی رضا اور اسلام کی سربلندی کے لیے اپنی اور اہلبیت کی بہتر جانوں کی لازوال قربانی پیش کی تھی ۔اور سال کے اختتام پر دس ذی الحج کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رب ذوالجلال کی بارگاہ میںاپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی پیش کی۔قربانی کی یہ دونوں مثالیں دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہیں گی۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلام ایثار اور قربانی کا مذہب ہے۔
اس مہینے یعنی ذی الحج میں ہم جب سُنت ابراہیمی مناتے ہوئے اللہ کی راہ میںقربانی پیش کرتے ہیں تو ہمیں قربانی کی روح کو بھی سمجھنا چاہیے آج کے موجودہ دور میں جس میں ہم لوگ جی رہے ہیں ہمیں اسلام کے زریں اصول ایثار اور قربانی کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھنے پہلے سے کہیں بہت زیادہ ضرورت ہے ۔آج ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر بیشمار مسائل اور پریشانیوںکا شکار ہیںاس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے ہمارے اندر ایثار و قربانی کے جذبے کی کمی کیساتھ قوت برداشت بالکل ختم ہوچکی ہے ہمیں صرف اور صرف اپنی خواہشات اور مفادات ہی نظر آتے ہیں اپنے اردگرد رہنے والے لوگوں بلکہ بہت قریبی عزیزوں تک کا احساس نہیں رہا اس کا نتیجہ یہ ہے معاشرے میں خودغرضی اور نفسانفسی کا عالم ہے ہمیں کسی کے دکھ سکھ سے کوئی غرض نہیں رہی جس کیوجہ سے ہم سب سکون کی دولت سے محروم ہوچکے ہیںہم دنیا کی دولت اور مال کی ہوس میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ ہمیں اپنے اپنے مفاد کے سواکچھ بھی نظر نہیں آتا اب حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ مجموعی طور پر سب کچھ ہونے باوجود لوگ حقیقی خوشیوںسے محروم ہو چکے ہیںکیونکہ حقیقی خوشیاں تو اس وقت ہی میسر آسکتی ہیں جب آپ کے اردگرد والے سب لوگ خوش ہوں اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم سب بحثیت مسلمان اپنے اندر ایثار اور قربانی کا جذبہ پیدا کریں دوسروں کے دکھ سکھ میں شریک ہوں اپنے عزیز و اقارب اور حلقہ احباب میں خوشیاں بانٹیں۔ اس طرح نہ صرف لوگ آپ سے خوش ہونگے بلکہ اللہ تعالیٰ بھی آپ سے راضی اور خوش ہوگا جس کے نتیجے میں آپ کو حقیقی خوشیاں نصیب ہونگی۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایثار اور قربانی کے جذبے سے سرشار کردے تاکہ ہم اپنے رب اور اس کی مخلوق کو راضی کرسکیںیہی عیدالضحیٰ کا پیغام اور فلسفہ ہے کیونکہ ہم اسلام کے قربانی اور ایثار کی روح اور فلسفے کو فراموش کرچکے ہیں اصل خوشی تو یہ ہے کہ انسان اپنی خوشیوں میں دوسروں کو یعنی اپنے عزیز و اقارب اور دوست و احباب کو بھی شریک کرے اس طرح معاشرے میں خوشیاں عام ہو سکتی ہیں یہی اسلام کا درس ،عیدالضحیٰ اور قربانی کا پیغام ہے آپ خوش ہوں لیکن آپکے اردگرد والدین،عزیز و اقارب اور دوست و احباب دُکھی اور پریشان ہوں تو آپ کبھی بھی حقیقی خوشیاں نہیں سمیٹ سکتے بلکہ یہ مصنوعی خوشی ہوگی۔جس سے دل کسی طور مطمئن نہیں ہوگا۔سُنت ابراہیمی ادا کرتے ہوئے ہمیں اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ ہمیں اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اللہ کی مخلوق کے حقوق کا بھی خیال رکھیں۔اپنی زندگی میں دوسروں کے لیے ایثار و قربانی کے جذبے کو فروغ دینے کیساتھ برداشت اور رواداری بھی اپنا چاہیے اگ ایسا ہو جاتا ہے تو ہماری زندگی خوشیوں سے بھر جائے اور ہماری یہ دنیا جنت بن جائے ۔اللہ کرے کہ اس عیدالضحیٰ کے موقع پرحج کا فریضہ اور قربانی کرتے ہوئے اپنے اندر تبدیلی لاتے ہوئے دوسروں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کرکے صیح معنوں میںخوشیوں سے لطف اندوز ہوں ۔نیز قربانی کے بعد قربانی کے جانوروں کی باقیات اور آلائشیں کھلی جگہ اور سڑکوں پر نہ پھینکیں بلکہ وہاں پھیہنکیں جہاں سے عملہ صفائی اس باآسانی اٹھا سکے تاکہ قربانی کے جانوروں کی آلائشوں سے گلی محلوں میں گندگی نہ پھیلے۔اس بات کا خود بھی خیال رکھیں اور دوسروں کو بھی تلقین کریں کہ وہ قربانی کے بعد جانوروں کی باقیات اور آلائشیں کھلے عام سڑکوں اور گلیوں میں نہ پھینکیں۔