اسلام آباد (جیوڈیسک) آئین میں اکیسویں ترمیم کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی۔ سماعت کے موقع پر خیبر پختونخواہ کے علاوہ کسی نے جواب جمع نہیں کرایا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت سے استد عا کی کہ جواب جمع کرانے کیلئے مزید وقت چاہئے، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پہلے ہی کافی وقت دے چکے ہیں، اٹانی جنرل نے کہا کہ اکیسویں ترمیم کیخلاف مزید درخواستیں بھی آئی ہیں، سب کا ایک ساتھ جواب دینا چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تمام درخواستوں میں ایک جیسا موقف اختیار کیا گیا ہے، اٹھارویں ترمیم کا معاملہ بھی عدالت میں چار سال سے زیر التوا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل حامد خان نے کہا کہ اس کیس کے حقائق مختلف ہیں، انیسویں ترمیم کے ذریعے عدالت کے عبوری حکم پر عمل ہو چکا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اٹھارویں ترمیم کیخلاف درخواستوں میں بھی بنیادی ڈھانچے کی بات کی گئی ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کے آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ ہے بھی کہ نہیں۔
اگر ہے تو کیا پارلیمنٹ اس میں ترمیم کر سکتی ہے یا نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ چاہتے ہیں اٹھارویں اور اکیسویں ترمیم کا معاملہ ایک ساتھ نمٹا دیں، ابتدائی سطح پر فل کورٹ بینچ نہیں بنا سکتے۔
مقدمے میں فل کورٹ اس وقت بنایا جائیگا جب مقدمہ دلائل کی سطح پر پہنچے گا۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو اکیسویں ترمیم پرجواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 24 فروری تک ملتوی کر دی ہے۔