تحریر: سید عبدالوہاب شیرازی میں نے پوچھا اعجازالحق صاحب کو جانتے ہیں؟ کہا جی ہاں کیوں نہیں وہ تو جنرل ضیاء الحق کے بیٹے تھے۔ میں نے کہا ”تھے” نہیں بلکہ ہیں۔ تو حیرانگی سے سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ،ابھی وہ زندہ ہیں؟ کہاں ہیں؟ میں نے کہاں اسلام آباد پارلیمنٹ میں نوکری کرتے ہیں اور راولپنڈی میں رہتے ہیں۔کہنے لگے تو پھر ان کا کوئی بیان، کوئی انٹرویو، کوئی ٹاک شو، کوئی جلسہ ، بھلے اپنے حلقے میں ہی ہو، کوئی اَتا پتا؟ میں نے کہا وہ خاموش پارلیمنٹیریئر ہیں۔ کہنے لگے اتنی خاموشی تو ہم نے مردوں کی نہیں دیکھی، بھٹو کو دیکھیں چالیس سال قبل پھانسی ہوئی تھی لیکن آج بھی زندہ ہے، بے نظیر کو بھی آٹھ نوسال ہوگئے ہیںہم سے رخصت ہوئے لیکن وہ آج بھی بلاول ہاوس میں زندہ ہے۔ میں نے کہا اعجاز الحق صاحب ہوں یا ان جیسے دیگر پسماندہ علاقوں کے جمہوری نمائندے ان کی خاموشی میں خود ان کا اتنا قصور نہیں جتنا وہاں کی بے شعور عوام کا ہے۔
پاکستان 1947ء میں بنا تھا، اس کے بعد 70 سال بیت گئے ہیں ضلع بہاولنگر کے مختلف علاقوں اور وہاں بسنے والے بے شعور لوگوں کو دیکھ لیں، آج بھی وہی بلیک اینڈ وائٹ تصویر آپ کو نظر آئے گی جو ستر سال قبل تھی۔ گیس کا تو نام ونشان نظر نہیں آتا، سڑکیں کچی، وہی گدھا گاڑیاں، بس اتنا فرق پڑا ہے کہ کچھ لوگوں نے گدے کی جگہ ڑیڑے کے آگے چائنہ کا موٹر سائیکل باندھ لیا ہے۔ہر طرف مٹی ہی مٹی، کیچڑ ہی کیچڑ، اینٹ اور گاڑھے کے بنے مکان، گوبر سے لپٹی دیواریں، گندا پانی۔ضلع بہاولنگر شاید رقبے کے لحاظ سے پنجاب کا سب سے بڑا ضلع ہوگا۔ بہاولنگر کے حلقہ این اے 191 سے مرد مومن مرد حق اعجاالحق صاحب الیکٹ ہوکر اسمبلی میں جاتے ہیں۔ وفاقی حکومت ہرسال حصہ بقدر جثہ کے حساب سے ہر قومی نمائندے کو کروڑوں روپے فنڈ دیتی ہے، یہ فنڈ کہاں چلاجاتا ہے کچھ معلوم نہیں۔2015ء میں بلدیاتی الیکشن ہوئے، ہریونین کونسل سے کئی کئی بلدیاتی نمائندے منتخب ہوئے اور پچھلے دو سال سے وہ بھی فنڈ لے رہے ہیں۔ بہاولنگر کی تحصیل فورٹ عباس اور اس کے مختلف علاقے مروٹ وغیرہ پرانے زمانے کی یاد دلاتے ہیں، جب لوگ جوہڑکا پانی پیتے، دیواروں کو گوبر سے لیپاکرتے تھے۔بازار اور گلیاں کچی اور گھروں کا پانی گلیوں میں گرتا ہے، سیوریج کا کوئی نظام نہیں۔یہاں سے منتخب ہونے والے قومی، صوبائی اور بلدیاتی نمائندے سالوں سال گزر جاتے ہیں اور ایک ٹکے کا کام نہیں کراتے، لوگ زیرزمین زہرآلود پانی پینے پر مجبور ہیں، سپلائی کے ذریعے جو پانی بعض علاقوں میں دیا گیا ہے وہ بھی نہر کا گندا اور آلودہ پانی ہے۔
پچھلے دوسالوں سے میرا آنا جانایہاں بہت ہوا ہے، میں نے اعجازالحق صاحب کے حلقے اور خصوصا مروٹ میں دیکھا ہے کہ بمشکل صاف پانی کا ایک فلٹریشن پلانٹ منظور ہوا اور وہ بھی حیلے بہانے سے 2018کے الیکشن تک ملتوی کیا جارہا ہے تاکہ عین الیکشن کے دنوں میں فلٹریشن پلانٹ کے نام پر ووٹ کھرے کیے جاسکیں۔اس کے علاوہ واٹر سپلائی کی ایک چھوٹی سی باالکل معمولی سی سکیم بھی عرصے سے تعطل کا شکار ہے۔آج اکیسویں صدی میں میں بھی اس واٹر سپلائی سکیم میں عام ہلکی پلاسٹک کے پائپ(بجلی وائرنگ والے پائپ) استعمال کیے جارہے ہیں۔ یقینا وفاقی حکومت نے تو فنڈ اس حساب سے نہیں دیے ہوں گے کہ آپ واٹر سپلائی کے لئے بجلی کی وائرنگ والے پائپ استعمال کریں، انہوں نے لوہے یا اعلیٰ کوالٹی کے پی وی سی پائپ کے حساب سے فنڈز دیے ہوں گے، لیکن کرپشن کی انتہاء کرتے ہوئے پہلے تو ہرسکیم ہی پوری کی پوری ہضم کردی جاتی ہے اور اگر ایک آدھ لگانا بھی شروع کریں بیس فیصد پیسہ بھی نہیں لگایا جاتا۔ اگر طبی سہولیات کو دیکھا جائے تو پوری تحصیل بلکہ ضلع کی سطح پر بھی کوئی قابل ذکر ہسپتال نہیں، تحصیلوں میں تو معمولی معمولی ڈسپنسریاں ہیں، چنانچہ لوگ اپنا ضلع اور اپنا حلقہ چھوڑ کر دوسرے ضلعے بہاولپور کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔ڈینٹل سرجن کا تصور تو خواب میں ہی کیا جاسکتا ہے، بازاروں میں جمور(پلاس) لیے(لوہار) لوکل سرجن بہت مل جاتے ہیںجن کا دانت نکالنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دانت کو جمور ڈال کر زور لگاتے ہیں اور ساتھ مریض کو بھی کہتے ہیں تم پیچھے کو زور لگاو۔یہی صورتحال تعلیم کی بھی ہے جس کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں۔
میرے خیال میں اس سارے معاملے میں اصل قصور وار وہ لوگ ہی ہیں جو ووٹ دے کر ان کو منتخب تو کرلیتے ہیں لیکن پھر اپنا حق ان سے وصول نہیں کرتے بلکہ خاموشی سے زندگی گزار رہے ہیں، لوگوں کی اکثریت کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہمارا کونسلر کون ہے اور اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ مجھے اپنے ضلع مانسہرہ اور بہاولنگر کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ بہاولنگر ہم سے بیس سال پیچھے جارہا ہے، یعنی اس قسم کی صورتحال وہاں آج سے بیس سال قبل نوے کی دہائی میں تھی۔لیکن آج وہاں یہ صورتحال ہے کہ دور دراز پہاڑوں میں ایک ایک گھر تک بجلی اور پکی سڑک گئی ہوئی ہے۔ وہاں سیوریج کا نظام نہ بھی ہو تو کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ پہاڑی علاقہ ہے پانی خود نیچے ندی کی طرف بہہ جاتا ہے لیکن اس کے باوجود لوگوں میں اتنا شعور ہے کہ وہ عوامی نمائندوں سے کام لینا جانتے ہیں، وہاں 2015ء کے بلدیاتی الیکشن میں جو نمائندے منتخب ہوئے ہیں وہ سر پیٹ رہے ہیں کہ کن لوگوں سے ہمارا واسطہ پڑ گیا ہے ہماری جان ہی نہیں چھوڑتے۔عوامی نمائندوں کے پاس فنڈآنے سے پہلے ہی لوگوں کو پتا چل جاتا ہے کہ اس کے پاس فلاں سکیم کے لئے اتنا اتنا فنڈآنے والا ہے۔
بہرحال عوام کے بے شعور ہونے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اعجازالحق صاحب کی کوئی ذمہ داری نہیں یا سارے فنڈز ان کے لئے حلال ہوگئے ہیں، انہیں چاہیے اپنے والد کی نیک نامی پر دھبہ نہ آنے دیں، اپنے حلقے کی عوام کو اکیسویں صدی کی سہولیات خصوصا بنیادی ضروریات صاف پانی، تعلیم اور صحت پر خصوصی توجہ دیں۔