تحریر : اختر سردار چودھری بزرگوں کا احترام ایک خالص اسلامی نظریہ ہے ۔اسلام کتنا پاکیزہ مذہب ہے بوڑھوں کودردر کی ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ نہیں دیابلکہ ان کی تعظیم کو اللہ کی تعظیم قراردیتا ہے ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بزرگوں کی عزت و تکریم کی تلقین فرمائی اور بزرگوں کا یہ حق قرار دیا کہ کم عمر اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کا احترام کریں اور ان کے مرتبے کا خیال رکھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے ۔”اسی طرح قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ”اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اْف” بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو، اور ان دونوں کے لیے نرم دلی سے عجز و اِنکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اللہ کے حضور) عرض کرتے رہو ‘اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے ) پالا”۔
ہم دیکھتے ہیں بچے اپنے والدین کو بات بات پر ڈانٹتے رہتے ہیںایسے بچے دوسرے بزرگوں کا کیا احترام کریںگے ۔آپ دیکھیں مسجدومدرسوں ،مزاروں،بازاروںگلی محلوں میں بھیک مانگتے بزرگ ہرروز دیکھے جاسکتے ہیں کوئی پیٹ بھرنے کے لئے ایک وقت کاکھانادے دیتاہے توکوئی جھڑک دیتا ہے اللہ کو سخت ناپسند ہے کہ بزرگوں کو جھڑکا جائے ۔حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”ہمارے بڑوں کی وجہ سے ہی ہم میں خیر و برکت ہے پس وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کی شان میں گستاخی کرتا ہے۔”
ہم سب جانتے ہیں کہ آج جو بچہ ہے وہ جوان ہوتا ہے اور پھر اس پر بڑھاپا آجاتا ہے ۔ہم عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں، ایک دن(اگر زندہ رہے تو)بوڑھے لازمی ہو جائیں گے۔ضعیف عمری میںکمزوری اور بیماریوں کا حملہ تو ہوتا ہی ہے،اپنی اولاد یا دیگر عزیز وں کی قدر وعزت نہ کرنے کا دکھ بھی ان کو گھیرے رہتا ہے ۔ معمر افراد کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ان کے تجربات نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہوتے ہیں ۔ہم نے اوپر لکھا معمر افراد کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں ،اس طرح کہ ان کی زندگی کے تجربات نوجوانوں کو منتقل ہوتے ہیں ،اس لیے بھی کہ آج جو جوان ہے کل وہ بچہ تھا، اسے جس نے پالا پوسا اپنی جوانی اس کو جوان کرنے پر صرف کی آج وہ بوڑھا ہے وہ اپنی محنت و مشقت سے اپنی اولاد کو بڑا آدمی بنانے کے لئے ساری عمر کوشاں رہے۔
Older People
پھرایک وقت ایسا آتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ان بزرگوں کی خوشیاں اکثر اوقات تلخیوں میں بدل جاتی ہیں۔ وہ پل پل جیتے اور پل پل مرتے ہیں۔اب ہم مجبور بھی ہوتے ہیں اور بے بس بھی اور شائد ان کی ضرورت بھی نہیں رہتی اس لیے ان کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ قارئین یہ بات بڑی توجہ طلب ہے کہ اسے پڑھ کر سر ندامت سے جھک جاتا ہے آپ بھی پڑھیںایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بزرگوں کے معیارِ زندگی کے حوالے سے بہترین ملک سویڈن ہے (تازہ ترین رپورٹ کے مطابق بزرگوں کے لیے بہترین ملک کے طور پر ناروے نے اپنے ہمسایہ ملک سویڈن کی جگہ لی ہے جواب دوسرے نمبر پر ہے تیسرے نمبر پر سوئٹزرلینڈ، چوتھے پر کینیڈا اور پانچویں پر جرمنی ہے) جبکہ پاکستان بدترین ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔
ایک اور رپورٹ نظر سے گزری جس میں بدترین ممالک میں پاکستان کا چھٹا نمبر بتایا گیا ہے، اور بزرگ افراد کے لیے بدترین ملک ایک مرتبہ پھر افغانستان کو قرار دیا گیا ہے۔ دونوں رپورٹس میں سے کوئی بھی درست ہو ہمارے لیے باعث شرم ہے اس کی مثال کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ پاکستان کے کسی بھی سرکاری ہسپتال میں شائد ہی بزرگوںکوعلاج ومعالجے کے حوالے سے کوئی ترجیحی سہولتیں فراہم ہوں، معمر افراد کو لمبی قطاروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح بینک ہیں جہاں پینشن لینے کے لیے ان کو سارا سارا دن دھکے کھانے پڑتے ہیں ۔تحریر کے آخر میں تحقیق پیش ہے۔
ایک تازہ ترین تحقیق سے معلوم ہوا کہ جو لوگ بوڑھے افراد کے لیے منفی رویے رکھتے ہیں، ان میں اپنی آئندہ زندگی میں دل سے منسلک بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔ نئی تحقیق کے مطابق وہ نوجوان اور ادھیڑ عمر افراد جنہوں نے بوڑھے افراد کے لیے منفی رویوں کا اظہار کیا، انہیں اپنی آئندہ زندگی میں سٹروک، دل کے حملوں اور دل کی دوسری سنگین بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ اپنے ہم عمر ان افراد کی نسبت زیادہ تھا جو بوڑھے افراد کی جانب عمومی طورمثبت رویہ رکھتے تھے ۔اب چلتے چلتے ایک حدیث سنتے جائیںحضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”جو جوان کسی بوڑھے کی عمر رسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے۔”