کسی بھی ، شہر ، صوبے اور ملک کی ترقی میں محکمہ ٹرانسپورٹ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر کسی علاقے میں ٹرانسپورٹ کا نظام موجود ہو اور بروقت ٹرانسپورٹ میسر آتی ہو تو اس علاقہ کی ترقی کو چار چاند لگ جاتے ہیں اور دوسرے علاقوں سے تاجر جوک در جوک سرمایہ کاری کرنے کیلئے تشریف لاتے ہیں۔ اور اگر ٹرانسپورٹ کا نظام صرف کاغذات کی حد تک قائم ہو تو اس ملک ، شہر اور علاقہ کی ترقی بھی کاغذات کی حد تک ہوتی ہے۔
قابل حکمران برسراقتدار آتے ہی اپنی حدود میں موجود ٹرانسپورٹ سسٹم کی ترقی کیلئے اقدامات اور کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ تاکہ جلد از جلد سڑکوں کا جال بچھایا جاسکئے اور پبلک ٹرانسپورٹ کو ترقی دے کر موجودہ وقت ودور کے مطابق ترتیب دیا جاسکے۔ اور اس کے ووٹر بھی ترقی یافتہ عوام کی طرح زندگی بسر کرسکئے۔ موجود ہ دور میں ہر کوئی دبئی ، پیرس کی سیر وتفریح کی خواہش دل میں لگائے ہوتا ہے۔
کیونکہ دنیا کاہر شخص جانتا ہے کہ ان ممالک کی حکومتوں نے مسافروں کی سہولت کیلئے دنیا کا بہترین نطام بنایا ہوا ہے۔ ترقی یافتہ نظام کی بدولت سیاح باآسانی سفر طے کرسکتے ہیں۔ دبئی کے تمام بس اسٹیشن پر سیاحوں اور غیرملکی حضرات کیلئے نقشہ آویزاں ہے۔ جس کی رہنمائی سے مسافر مطلوبہ جگہ (ہوٹل، مارکیٹ، شاپنگ سنٹر، کھیل کا میدان ، سکول ، کالج ، یونیورسٹی ، روڈ وغیرہ) تک با آسانی رسائی کرسکتا ہے۔ اور تفریح سفر کو یاد گار بنا سکتا ہے۔
دینا بھر میں کو ئی ٹرانسپورٹر کسی مسافر سے اوور چارجنگ نہیں کر سکتا اور اگر کوئی کرنے کی ہمت کرئے تو اس کو جرمانہ و سزا سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ٹریفک کے نظام کو بحال رکھنے کیلئے تمام ممالک میں ٹریفک پولیس موجود ہے اور تمام اپنی ڈیوٹیاں احسن طریقے سے سرانجام بھی دیتے نظر آتے ہیں ماسوائے پاکستان کے۔ پاکستان میں ٹرانسپورٹ مافیا میں بااثر سیاسی ، سماجی شخصیات شامل ہونے کی وجہ سے کسی بھی گاڑی میں کرایہ نامہ آویزاں نہیں۔
Transport
اگر کسی نے غلطی سے آویزاں کربھی دیا ہے تو اس پر عمل درآمد عوام کو نصیب نہیں ہوا۔ مزید برآں ٹرانسپورٹ اوورلوڈنگ کی حد بھی عبور کرجاتے ہیں۔گاڑی کے اندر تو بھیڑ بکریوں کا منظر ہوتا ہی ہے اوپر والی منزل یعنی چھٹ پر تو ایسے لگتا ہے جیسے مرغیوں کوسوار کیا ہوا ہے۔ جواپنی جان کی فکر سے بے نیاز ہوکراپنے گھروں کو واپس جارہے ہیں اور راستیمیں عوامی جائزہ ، مٹی کا مزہ اور بااثر شخصیات کے پروٹول کو ل کے ساتھ گزرتے قافلے دیکھ کر احساس کمتری ، جگہ جگہ کھڑے سفیدیو نی فارم میں ملبوس افراد کو ڈرائیوروں سے رشوت لینے کا منظر مفت میں حاصل کر رہے ہیں۔
ارباب اقتدار اور اعلیٰ سرکا ری افسران کو ایک دن پبلک ٹرانسپورٹ کا پر لطف سفر کر کے عوامی مشکلات کا اندازہ تو لگاہی لینا چاہیے۔ قارئین بیشک پاکستان میں موجود ٹرانسپورٹ کا نظام دیگر ایٹمی طاقتوں کے مقابلے میں صفر ہے ، یہاں پرروزانہ غیر معیاری CNG کٹ کے دھماکہ سے افراد کی شہادت کی خبریں عام ہے۔ سگریٹ کے دھویں سے بیماراور فرسٹ ایڈبکس نہ ہونے کی بدولت شدید بیمار ہوکر سرکاری ہسپتالوں میں سرکاری ڈاکٹروں کا انتظار کرتے نظر آتے ہیں۔
مگر انتظار لمبا ہونے کی بدولت قریبی عطائی ڈاکٹروں سے ادویات لے کر واپس گھر چلے آتے ہیں، کیونکہ غریب آدمی سرکاری ڈاکٹروں کی پرائیویٹ فیس کو برداشت کرنے کی قوت نہیں رکھتا، جن کی فیس ہرگھنٹے کے بعد کم یا زیادہ ہوتی ہے ، جبکہ پاکستان میں اتنی سپیڈ سے تو پٹرول یا ڈالر ترقی نہیں کرتا جتنی سپیڈ سے ڈاکٹرکے نرخ ترقی کرتے ہیں۔ لگتا ایسا ہے کراچی انتظامیہ غفلت، لاپرواہی، رشوت خوری، سیاسی دبائو کی وجہ سے ٹرانسپورٹ مافیاکو کنٹرول کرنے کی طاقت سے محروم ہو چکی ہے۔ جس کا نقصان صرف اور صرف غریب عوام برداشت کررہے ہیں۔ کوئی تو حد ہو گی آخر کب تک اور برداشت کریں۔
شدید سردی و گرمی میں مسافر چھت کی تلاش میں نظر آتے ہیں اور بارش والے دن تو اﷲ کے حضور دعا خیر کرتے نظر آتے ہیں، انتظار گاہ پر پہلے نشیوں نے ڈیرہ جمایا ہوا ہے۔ راقم موجودہ حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ وہ نااہل، راشی انتظامی افسران کی مناسب تربیت کا اہتمام کرئے تاکہ شہر قائد کے باسی اوور لوڈنگ ، اوور چارجنگ، اوور سپیڈ اور رشوت کے ٹرانسپورٹ سسٹم سے نجات حاصل کرکے سکون و اطمنان کے ساتھ نقل و حمل کر سکیں۔ بصورت دیگر تبدیلی کیلئے ووٹ دینے والے عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ شب گزرتی دکھائی دیتی ہے دن نکلتا نظر نہیں آتا