کلیولینڈ (جیوڈیسک) کلیولینڈ میں ریپبلکن کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ “ہمارا کنونشن ہماری قوم کو درپیش ایک بحرانی لمحے میں منعقد ہوا ہے۔
ہماری پولیس پر حملے، اور ہمارے شہروں میں دہشت گردی ہمارے معمولات زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
ایسا کوئی بھی سیاستدان جو اس خطرے پر گرفت نہیں رکھ سکتا ہمارے ملک کی قیادت کے لیے موزوں نہیں۔”
اپنی تقریر میں انھوں نے صدر منتخب ہونے کی صورت میں مختلف امور پر اپنے منصوبوں کو ذکر بھی کیا جن میں شدت پسند گروپ داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف لڑائی، بین الاقوامی تجارتی معاہدوں، ہم جنس پرستوں کے حقوق اور بین الاقوامی بحرانوں سے نمٹنے میں اپنے ملک کی پالیسی کا تذکرہ شامل تھا۔
“آپ کے صدر کے طور پر، میں اپنے اختیار کے مطابق ہمارے ہم جنس پرست شہریوں کو تشدد اور امتیاز سے محفوظ رکھوں گا۔ دہشت گردی سے تحفظ دوں گا۔ اور ہمیں تین چیزوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔”
ٹرمپ نے ان تین چیزوں کو کچھ یوں بیان کیا کہ “انٹیلی جنس معلومات کے حصول کو دنیا میں بہترین بنانا، حکومتوں کو تبدیل کرنے کی پالیسی جیسے کہ ہلری کلنٹن نے عراق، لیبیا، مصر اور شام میں کی اسے ترک کرنا، اور ایسے کسی بھی ملک سے تارکین وطن کو قبول نہ کرنا جو دہشت گردی میں ملوث ہوں تاوقتیکہ ان کی چھان بین کا موثر نظام وضع نہ ہو جائے۔”
انھوں نے کہا کہ “میں صرف ایسے افراد کو ہمارے ملک میں آنے دوں گا جو ہماری اقدار کی حمایت کریں اور ہمارے لوگوں سے پیار کریں، جو کوئی بھی تشدد، نفرت یا استحصال کی حمایت کرتا ہے اس کا ہمارے ملک میں خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔”
ڈونلڈ ٹرمپ نے تقریر میں غیر قانونی تارکین وطن اور امریکہ میں جرائم سے نمٹنے کی طرف بھی توجہ دلائی اور غیرقانونی تارکین وطن کے خطرے کو داعش کے برابر خطرہ قرار دیا۔
“ہماری نئی انتظامیہ کا پہلا کام اپنے شہریوں کو جرائم، لاقانونیت اور دہشت گردی سے آزادی دلانا ہوگا۔ ہم ہر اس شخص کو جو ہمارے لوگوں کے امن اور پولیس کے تحفظ کے لیے خطرہ ہے یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ، جب میں آئندہ سال (عہدہ صدارت کا) حلف لوں گا، میں ملک میں امن و امان بحال کروں گا۔”
ان کے بقول امریکہ میں ایک لاکھ 80 ہزار ایسے غیرقانونی تارکین وطن ہیں جن کا مجرمانہ پس منظر ہے “انھیں ملک بدر کر دیا جانا چاہیے تھا لیکن یہ اب تک امریکہ میں رہ رہے ہیں۔”
اس خطاب کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی بڑی بیٹی ایوانکا ٹرمپ نے انھیں اسٹیج پر مدعو کیا اور اس کہا کہ وہ “عوام کے چیمپیئن” ہیں۔
انھوں نے کہا کہ “میں نے اپنے والد کو اپنے ملازمین (کے حقوق) کے لیے لڑتے دیکھا اور اب میں دیکھ رہی ہیں وہ اپنے ملک کے لیے لڑ رہے ہیں۔”