گزشتہ پانچ سال تک وفاق اور تین صوبوں پرحکومت کرنے والی جماعت پیپلزپارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے پاس جائیں گے اور عوام کی حمایت سے دوبارہ حکومت بنائیںگے۔لیکن حقیقت کچھ مختلف ہے عوام اس بات کوہرگزماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور اقتدار میں کوئی بہتری آئی ہے ۔اگر پیپلزپارٹی نے اپنے دورحکومت میںکچھ اچھے کام کئے بھی ہیں تواُن کاتعلق براہ راست عام آدمی سے نہیں ہے اور نہ ہی عام آدمی کو گزشتہ پانچ سالوں میں کسی طرح کاکوئی ریلیف ملا ہے۔
ملک میں پھیلی بدامنی،ناانصافی،مہنگائی ،کرپشن،بے یقینی کی فضا،بجلی و گیس کی طویل لوڈشیڈنگ،روزگارکا تباہ ہونا۔پاکستانی انڈسٹری کا پاکستان سے بیرون ملک منتقل ہونا اور دیگر مسائل وہ جن ہیں جوعام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو شکست سے دوچار کرسکتے ہیں ۔بے نظیر انکم سپورٹ اور اپنا وسیلہ روزگارکے نام سے چلنے والے پروگرام وہ منصوبے ہیں جو الیکشن 2013ء میں پیپلزپارٹی کے حق میں جائیں گے ۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے ،صوبہ پنجاب پر پانچ سال حکمرانی کرنے والی جماعت کے سربراہ میاں محمد نوازشریف کا فرمان عالی شان ہے کہ عوام نے ساتھ دیاتو ملک و قوم کی تقدیر بدل دیں گے۔میاں نوزشریف اس بات کابارہا اعتراف کرچکے ہیں کہ زرداری حکومت کے پانچ سال پورے کرنے میں مسلم لیگ ن کا ہاتھ ہے ۔بدامنی،مہنگائی ، ناانصافی اور بے روزگاری کی چکی میں پساعام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر میاں نواز شریف عوام کی بہتری، ملک و قوم کاحال و مستقبل روشن کرنا چاہتے ہیں۔
توجب زرداری حکومت نے عوام کے لئے کچھ نہیں کیاتوپھرانہوں نے پیپلزپارٹی کی حکومت کیوں پانچ سال تک چلائی؟جبکہ پنجاب میں ہونے والے ترقیاتی کام ملک بھرسے مسلم لیگ ن کے حق میں جاسکتے ہیںجن میں سڑکوں کے جال ،میٹرو بس منصوبہ ، پاکستان میں انٹر نیشنل سٹینڈر کی ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کاقیام جس کی ضرورت اُس وقت شدت سے محسوس کی گئی جب کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ میں غلط ادویات کا مسئلہ سامنے آیااُ س وقت پاکستان میں کوئی ایسی ٹیسٹنگ لیب موجود نہ تھی۔
جوادویات کی تسلی بخش رپورٹ پیش کرتی اس لئے سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے اُن ادویات کے ٹیسٹ لندن اور پیرس وغیرہ سے کروائے تھے ، لیپ ٹاپ ،سولرسسٹم کی تقسیم ،پنجاب میں باقی صوبوں سے بہتر امن امان کی صورتحال اور دیگر شامل ہیں ۔لوگ کہتے ہیںکہ پنجاب حکومت نے پھربھی کچھ نہ کچھ کام کئے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کے پاس ہر غلطی کوپیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت پرڈال کرووٹ مانگنے کی بہت بڑی گنجائش موجود ہے۔
Political Parties
باقی سیاسی جماعتوں سے کچھ ملتا جلتا نعرہ عمران خان بھی لگا رہا ہے۔دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے عوام کے ساتھ بہتر سلوک نہیں کیا جس کی وجہ سے عمران خان کوآگے آنے کا موقع مل رہاہے ورنہ میں نہیں سمجھتاکہ عمران خان کوئی بڑا سیاسی اور انقلابی لیڈر ہے ۔کچھ بھی ہونوجوانوں کی ایک بڑی تعداد عمران خان کے ساتھ ہے ،بہت سے جاگیردار،سرمایہ دار اوروڈیرے بھی اُس کے ساتھ مل چکے ہیں اور پھر نیاپاکستان بنانے کے لئے لوگ پیسے بھی دے رہے ہیں۔
الیکشن2013ء میں عمران خان کواگربڑی کامیابی نہیں بھی ملتی توپھر بھی اتنی عوامی حماعت حاصل ہوسکتی ہے کہ کم ازکم تحریک انصاف سیاسی جماعتوں میں شامل ضرور ہوجائے گی ۔یہ تو میری ذاتی رائے ہے ہوگاکیا یہ بات تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا اور آنے والا وقت ہی بتائے گا۔افسوس اس بات کا ہے کہ کچھ دانشوروں نے اپنے آپ کو سیاستدانوں کی لونڈی بنا دیاہے۔کچھ دانشورتوسونامی خان کے قصیدے اس انداز میں پڑھ رہے ہیں جیسے اُسے بھگوان ثابت کرناچاہتے ہوں ۔مجھے سمجھ نہیں آتی آخر یہ لوگ ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں۔
کیا قوم نہیں جانتی کہ عمران خان کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم نے کرکٹ ورلڈکپ جیتا ،قوم کے پیسوں سے شوکت خانم ہسپتال بنایا ،لوگوں سے پیسے مانگ کر یونیوسٹی بنائی ،عوام سے خیرات مانگ کر مصیبت زدہ کسانوں کو کھاد اور بیج فراہم کیا اور آج الیکشن لڑنے کے لئے بھی عوام سے فنڈ مانگ رہا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سارے کام اُس نے نیک نیتی اور انسانیت کی فلاح کو مدنظر رکھتے ہوئے کئے ہیں تواِن کاموں کے عوض قوم سے وزارت اعظمیٰ کیوں مانگ رہاہے ؟سونامی خان کا سب سے بڑا نعرہ یہ تھا کہ پاکستان سے ماروثی سیاست کو ختم کردیں گے۔
یہ بات سچ ہے کہ پاکستان میں ماروثی سیاست کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اور پارٹی قیادت باپ کے بعد بیٹا،بیٹی اور پوتے ،پوتیاں سنبھالتے ہیں اور انہیں میں سے وزیر اور سفیر بنتے ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے،کہ اس مروثیت نے کرپشن ،ناانصافی اور اقرباء پروری کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے خطرناک امراض کو جنم دیا ہے ۔لیکن جس طرح سونامی خان نے اپنی پارٹی میںہر اُس سیاست دان کو بھرتی کرلیا ہے جو تین تین ،چارچار مرتبہ خود اور اُن سے پہلے اُن کے باپ داداممبر اسمبلی اور وزیر،سفیر رہ چکے ہیں ،کیااس طرح ماروثی سیاست ختم ہوجائے گی؟کیا یہ لوگ اُس مروثیت کاحصہ نہ ہیں جس کوختم کرنے کی بات سونامی خان کرتاہے۔
اب کہتے ہیں جی تھانے کے ایس ایچ او بھی علاقے کے لوگ منتخب کیا کریں گے ،ارے بھائی کوئی شریف آدمی تھانے کانام سننا پسند نہیں کرتا ،تھانوں میں بھی وہی ماروثی سیاست دان ہی اثر رکھتے ہیں جن کو ہر سیاسی جماعت میں باآسانی جگہ مل جاتی ہے ۔ایس ایچ اوکو علاقے کے لوگ منتخب کریں گے یعنی وڈیرے،سرمایہ دار،جرائم پیشہ لوگ اور ٹائوٹ ۔جناب عالیٰ عام عوام تو پچھلے 65.66سالوں سے صحیح حکمران منتخب نہیں کرسکے توتھانے دار کہاں سے کرلیں گے؟پھر جو لوگ تھانے دار کی مخالفت میں ووٹ کریں گے اُن کا کون والی وارث بنے گا؟خیرسونامی خان ٹھہرا سیاست دان اور سیاست دانوں کو توسو تھانے دار معاف ہیں۔
آج کے زمانے میں۔پریشانی اس بات کی ہے کہ اہل قلم سیاست دانوں کے قصیدے کیوں پڑھتے ہیں ؟آئین کے مطابق ہر منتخب حکومت کوپانچ سال تک حق حکمرانی ہے جس کے بعد پھر سے عوام اپنے لئے نئے حکمران کا انتخاب کریں گے لیکن اہل قلم کا مقام نہ صرف عمربھر بلکہ مرنے کے بعد بھی اپنی جگہ قائم رہتا ہے،میرے کہنے کامطلب یہ ہے کہ حکمران بدلتے رہتے ہیں لیکن اہل قلم اپناکام کرتے رہتے ہیں۔اہل قلم کایہ فرض بنتا ہے کہ اپنے قلم کی طاقت سے عوام کو باشعور کرنے کی کوشش کرتا رہے اور جس رہنماء کوبھی بہتر سمجھے اُس کی اچھائی بیان کرے لیکن اس حد تک نہیں کہ قصیدہ بن جائے۔
Pakistan People
اہل قلم کا کام ہے کہ وہ تمام سیاسی پارٹیوں اور قیادتوں کی اچھائیوں کے ساتھ ساتھ بُرائیاں بھی سچ کی روشنی میں پوری ایمانداری کے ساتھ عوام کے سامنے رکھ دیں اور اس بات کافیصلہ کرنے کا اختیار عوام کے پاس رہنے دیں کہ وہ کس کو پسند کرتے ہیں اور کس کو ناپسند۔یہ کیا کہ ایک سیاست دان کی برائیوں کو بھی اچھائیاں بنا کرپیش کرنا اور دوسرے کی اچھائیوں کو بھی بُرائیوں میں بدل کرپیش کرنااب ایسی حرکتوں سے کچھ حاصل نہیں ہونے والاکیونکہ اب عوام یہ بات جان چکے ہیں کہ کچھ لوگ کرائے کے قلم سے لکھتے ہیں۔
عوام بھی پاکستانی ہیں اور سیاست دان بھی ہوسکتا ہے کہ جس سیاست دان کے قصیدے پڑھے جارہے ہوں لوگ اُس دانشور سے بھی زیادہ اُس کے قریب ہوں ۔ گزراماضی مستقبل کا آئینہ ہواکرتا ہے ۔یہاں مجھے اپنے دوست عمر شفیق ملک کے منہ سے سنا ہوا ایک جملہ یادآگیاوہ کہا کرتے ہیں کہ کھنڈرات بتاتے ہیں کہ عمارت کیسی تھی ،یعنی حال بتاتا ہے کہ ماضی کیسا تھااور ماضی بتاتا ہے کہ مستقبل کیسا ہوسکتا ہے۔مثال کے طور پر مشہور سٹیج ڈانسراور اداکارہ نرگس نے پچھلے دنوں شوبز چھوڑنے کے اعلان کے ساتھ یہ اعلان بھی کیاتھا کہ اب دینی تعلیم حاصل کریں گی ۔مجھے اس بات پہ ہرگزکوئی شک نہیں اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرتا اور معاف فرماتا ہے لیکن اب نرگس باقی زندگی میں چاہے۔
کبھی ڈانس نہ بھی کرے پھربھی دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں اُس کاڈانس دیکھنے کوملے گا۔آنے والے زمانوں میںچاہے کوئی کسی کوکتنا بھی یقین دلائے کہ نرگس ہمیشہ سے باپردہ عورت ہے اُس کا ریکارڈ ڈانس دیکھنے والے کبھی تسلیم نہیں کریںگے ۔اوراگریہی بات کوئی دانشور لوگوںپر زبردستی تھوپنے کی کوشش کرے کہ سونامی خان نے کبھی کوئی کام ادھورا نہیں چھوڑا ،کبھی جھوٹ نہیں بولا،کبھی وعدہ خلافی نہیں کی اور اُس کے اِردگرد موجود سیاست دانوں کا ماروثی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے،اُس کے تمام منصوبے قابل عمل ہیں،وہ جوکہتا ہے زمانے کا سب سے بڑاسچ ہے تو کیا۔
عوام یہ سب باتیں آنکھیں بند کرکے مان لیں گے؟ہرگزنہیں۔اگر ایک دانشور کاقلم صرف سیاست دان کے قصیدے لکھنے اور زبان قصیدے پڑھتی رہے تو پھر اُس دانشور کی اپنی پہچان کہاں جائے گی ؟اپنی تعریف تو سیاست دان خود بھی کرنا جانتے ہیںدانشور کا کام نہیں کہ ہروقت تصویر کاایک ہی رخ عوام کے سامنے پیش کرے اور بھی بہت سے موضوعات ہیں جن پر بات کرنے کی آج شدید ضرورت ہے حکمران کوئی بھی ہو،انتخابات کوئی بھی جیتے دانشور کا کام ہے کہ وہ معاشرے میں پھیلی خرابیوںکی نشان دہی کرے اور حکومت کے ساتھ ساتھ ہراُس شخص کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کرے جو کوئی اچھا کام کرتانظر آئے۔
کسی ایک شہر میں بیٹھ کر پورے پاکستان کی صورتحال پر ضد کی حد تک بحث کرنا کسی بھی دانشور کوزیب نہیں دیتا کیونکہ ہرحلقے ،ہرشہر،ہرقصبے ،ہرگائوں اور اب تو ہر گھر کی صورت حال سمجھ سے باہرہے بیٹا کوئی بات کرتا ہے،بیٹی کوئی بات کرتی ہے،بیوی کوئی بات کرتی ہے اور شوہر کوئی اور بات کرتا ہے ،حتیٰ کہ گھر کے ہرفرد کی رائے دوسرے سے مختلف اور اپنی جگہ معتبر ہے اس لئے ایسے دانشوروں کی خدمت میں گزارش ہے،جو آج کل قصیدے لکھ اور پڑھ رہے ہیں کہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے پسندیدہ سیاست دان کی شخصیت کو بھی مشکوک نہ بنائیں۔ تحریر : امتیاز علی شاکر imtimazali470@gmail.com. 03154174470