الیکشن کمیشن کی جانب سے سابقہ حکومت کے سبکدوش ہوتے ہی اُسی روز یعنی 31 مئی کو الیکشن2018 کے شیڈول کا اعلان کیا گیا اورملک بھر میں الیکشن کے انعقاد کی تاریخ25جولائی مقررکی گئی مگر اگلے ہی روز لاہور ہائیکورٹ نے سابقہ پارلیمنٹ کی طرف سے بنایا گیا نیا فارم کاغذاتِ نامزدگی کالعدم قرار دیدیاجس پر الیکشن شیڈول معطل ہوگیا اِس طرح الیکشن کمیشن اور اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے فیصلہ آتے ہی اِسے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چیلنج کردیا ۔ سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے نیا فارم کاغذاتِ نامزدگی بحال کردیا جس پر الیکشن کمیشن نے ترمیمی الیکشن شیڈول جاری کیامگرسپریم کورٹ نے امیدواروں کے لئے ایک شرط رکھ دی کہ انہیں آئین کے آرٹیکل 62,63پر پورااترنے کا بیانِ حلفی کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ دینا ہوگا جو نیافارم کاغذاتِ نامزدگی سے خارج کیا جاچکا تھا۔ نیافارم کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ بیانِ حلفی لف کرنے کی شرط کی وجہ سے امیدواروں کی تعداد الیکشن 2013کے مقابلے میں بہت کم رہی مگر سپریم کورٹ نے الیکشن شیڈول کو متاثر نہ ہونے دیا۔
اِس الیکشن میں انتخابی مہم تقریباًآخری دو ہفتوں میں ہی نظر آئی جبکہ اِس دوران سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو ایک نیب ریفرنس میں اپنی بیٹی اور داماد سمیت 6جولائی کواُس وقت سزاسنائی گئی جب وہ اپنی بیٹی کے ہمراہ اپنی بیمار بیوی کی عیادت کیلئے لندن میں موجود تھے ۔جزوی انتخابی مہم کے آغاز پرملک میں دشمنان ِ پاکستان کی طرف سے دو بڑی دہشتگرد کاروائیاںکی گئیں جن کے نتیجہ میں 10جولائی کو پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنمابیرسٹر ہارون بلور اور اور13جولائی کو مستونگ میں بلوچستان عوامی پارٹی کے محب وطن رہنما نواب سراج رئیسانی سمیت سینکڑوں افراد شہید ہوگئے تھے۔اِسی روز میاں نواز شریف اپنی بیٹی مریم صفدرکے ہمراہ لاہور ائرپورٹ سے گرفتارہونے پر اڈیالہ جیل پہنچے جہاں اُن کے داماد کیپٹن (ر)صفدر پہلے ہی گرفتاری کے بعدموجود تھے۔ نواز شریف فیملی کی گرفتاری اور پاک فوج سمیت دیگر حساس اداروں کی دہشتگردوں کے خلاف موثر کاروائیوں پرملک بھر میں باقاعدہ انتخابی مہم کا آغاز ہوا جبکہ اِس سے قبل عام رائے یہ بنتی جارہی تھی کہ الیکشن وقت پر نہیں ہونگے۔
الیکشن کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ اِس بار انتخابی ضابطہ اخلاق میں کافی حد تک عمل نظر آیا خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کاروائیاں کی گئیں جس کے نتےجے میں سینکڑوںگرفتاریاں ،پینافلیکس کا مقررہ سائز اور امیدواروں کو خلاف ورزی پر نوٹس بھیجے گئے اورجرمانے عائد کیے گئے۔
الیکشن کا انعقاد اپنے مقررہ وقت یعنی 25جولائی کو ہوا جس کے نتیجے میں1992میں پاکستان کو کرکٹ ورلڈ کپ جتوانے والے سابق کپتان عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف قومی اسمبلی کی 272نشستوں میں سے 116نشستیں حاصل کرکے پہلی بار حکومت بنانے جارہی ہے یہاں پاکستان مسلم لیگ (ن)کے پاس 64اور پاکستان پیپلز پارٹی کی43نشستیں ہیںاِس کے علاوہ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف خیبر پختونخواہ سمیت پنجاب میں بھی اپنی صوبائی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گی جبکہ سندھ میںپاکستان پیپلز پارٹی اور بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنالے گی۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری ا عدادو شمار کے مطابق ملک بھر میں ووٹ ڈالنے کا تناسب51.7 فیصد رہا جو پچھلے الیکشن کے لحاظ سے کافی زیادہ ہے خاص طور پر بلوچستان میں حالیہ اور الیکشن والے دن دہشتگردی کے واقعات کے باوجودلوگ لمبی لمبی قطاروں میں ووٹ ڈالنے کیلئے کھڑے نظر آئے جبکہ ووٹ بنک کے لحاظ سے نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والی جماعتوں میںپاکستان تحریک انصاف 16858900ووٹ لیکر پہلے،پاکستان مسلم لیگ(ن) 12896356ووٹ لیکر دوسرے،پاکستان پیپلز پارٹی 6900815 ووٹ لیکر تیسرے ،آزاد امیدوار 6018181ووٹ لیکر چوتھے،متحدہ مجلسِ عمل 2541514ووٹ لیکر پانچویں، پہلی بار الیکشن لڑ نے والی تحریک لبیک پاکستان 2191685 ووٹ لیکرچھٹے ،گرینڈ نیشل الائنس 1257351 ووٹ لیکرساتویں،عوامی نیشنل پارٹی 808229ووٹ لیکرآٹھویں،متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان)729767ووٹ لیکر نویں ، پاکستان مسلم لیگ (ق) 515258 ووٹ لیکر دسویں ،بلوچستان عوامی پارٹی 317290 ووٹ لیکر گیارویں اور بلوچستان نیشنل پارٹی 215589 ووٹ لیکر بارویں نمبر پر رہی۔
مقررہ وقت پراور پرُ امن الیکشن کا انعقاد صرف اور صرف پاک فوج اور سپریم کورٹ ہی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے جبکہ پہلے کئی قسم کی قیاس آرائیاں گردش کررہی تھیں ۔اِس وقت حکومت سازی کیلئے روایتی جوڑ توڑعروج پر ہے لہٰذااِس موقعہ پر میں پاکستان کے بہتر مستقبل کیلئے دُعاگواور آئندہ آنے والے نئے حکمرانوں کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں اور اِن کے مخالفین کو کہنا چاہوں گا کہ وہ نئی حکومت کے ساتھ مل کر پاکستان کی تعمیرو ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔