اسلام آباد (جیوڈیسک) وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ الیکشن ایکٹ کی تیاری کے معاملے میں 34 رکنی کمیٹی میں شامل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ارکان اور شیخ رشید کی جانب سے کوئی ترمیم ہی پیش نہیں کی گئی تھی، وہ مسودے سے مطمئن تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام جماعتیں لڑائی جھگڑا کرنے کی بجائے پارلیمنٹ میں آئیں۔ نگران وزیرِ اعظم کے لیے حکومت اوراپوزیشن مشاورت کرے گی۔ کوشش کریں گے کہ ایسے ناموں پر اتفاق ہو جن پر پوری قوم کو اعتماد ہو۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ حکومت ایگزیکٹو کا نام ہے جس میں مختلف شعبے ہیں۔ جب کوئی غیر معمولی صورتحال ہو تو سول اور ملٹری ادارے مل کر ہی صورتحال سے نمٹتے ہیں۔ دھرنے کو ختم نہ کیا جاتا تو ملک بھر میں مذہبی فسادات بھڑکنے کا خدشہ تھا۔ ختمِ نبوت سیاسی نہیں مذہبی عقیدے کا معاملہ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ مظاہرین ایسی چیزوں سے مسلح تھے جو عام حالات میں مظاہرین کے پاس نہیں ہوتی۔ پولیس کو اندازہ نہیں تھا کہ مظاہرین بھی آنسو گیس پھینک سکتے ہیں۔
لائیو کوریج کے نتیجے کی وجہ سے پنڈی سے جلوس نکلے تھے۔ سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کو روکا تا کہ خون خرابے کو روکا جا سکے۔ انتظامیہ نے ایک سطح پر جا کر آپریشن کو روکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ دوسری طرف آتشیں اسلحہ موجود تھا۔ اگر پولیس اہلکار بھی فائرنگ کرتے تو صورتحال خراب ہو سکتی تھی۔ معاملے کو بڑی حکمت عملی کے ساتھ ڈیل کیا گیا اور بڑی تباہی سے بچ گئے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے درخواست کی کہ ربیع الاول کے مہینے میں نفرتوں کو ختم کیا جائے۔ دشمنوں کی کوشش ہے آپس میں لڑائی ہو۔ دشمن عراق اور شام کے مسلمانوں کی طرح ہمیں لڑانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل نہایت روشن ہے۔ پاکستان اور جمہوریت ایک سکے کے دورخ ہیں۔ پاکستان ووٹ کی طاقت سے ہی بنا اور ووٹ کی طاقت سے ہی بچے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران فسادیوں کی طرح ماچس ہاتھ میں لے کر پٹرول کی بو سونگھ رہے ہیں۔ عمران کے پاس کیچڑ اچھالنے کے ڈرم موجود ہیں۔ ہم عمران خان کی طرح ذاتیات کی نہیں، اصولوں کی سیاست کرتے ہیں۔ احسن اقبال نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ
مدینہ انسٹی ٹیویٹ کی گلوبل ایڈوئزاری کمیٹی میں میرا نام شامل ہے۔ بورڈ کا ایکٹو ممبر ہونے اور سفر کی وجہ سے مجھے اقامہ دیا گیا تھا تاہم اقامہ کے علاوہ کوئی ایک روپیہ نہیں لیا، اس حوالے سے میرے پاس ڈاکیومنٹس موجود ہیں۔ خان صاحب بڑے شوق سے عدالت جائیں اور میرے اقامے کو چیلنج کریں۔
بعد ازاں دنیا نیوز کے پروگرام دنیا کامران خان کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ داخلہ چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ معاہدے پر ہماری طرف سے تحفظات تھے لیکن دھرنے والوں کے عمل کی وجہ سے ایسا معاہدہ کرنا پڑا۔ ملک کی عسکری اور سیاسی قیادت نے مل کر حل نکالا جو ملک کے لیے کامیابی ہے۔ حکومت معاہدہ پاکستان کے قانون کے مطابق کرتی ہے۔ معاہدہ میرٹ پر نہیں بڑے فساد کو بچانے کے لیے کیا گیا۔ معاہدے میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ حکومت کوئی ایسا معاہدہ نہیں کر سکتی جو قانون کو اوور رائٹ کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ بیس دنوں کے دھرنے نے پاکستان کے امیج کو بہت نقصان پہنچایا۔ دھرنا فوری ختم نہ کراتے تو مختلف مسالک کے درمیان فسادات شروع ہو سکتے تھے۔ منصوبہ تھا دیگر مسالک کو بھی ٹارگٹ کیا جائے۔ چہلم کے دوران دھرنا والوں کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ انہوں نے بتایا کہ دو ہزار افراد کی اینٹی رائٹ فورس کو تیار کر رہے ہیں تا کہ اسلام آباد کو مستقل طور پر محفوظ بنایا جا سکے۔ دیگر صوبوں کو بھی ایسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے اقدامات کرنے کا کہا ہے۔ وزیر داخلہ نے بتایا کہ پارلیمنٹ ختم نبوت کی محافظ ہے۔ بارہ ربیع الاول کے بعد جید علما کیساتھ اجلاس بھی ہو گا۔