مسلم لیگ (ن) کا دور حکومت حال میں ہی ختم ہوچکا تھا جس سے قبل ہی سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے باہمی مشاورت سے جسٹس ناصر الملک کا نام نگران وزیر اعظم کے لئے تجویز کیا اور اس کے بعد الیکشن کمیشن کی طرف سے صوبوں کے نگران وزیر اعلیٰ کے نام مقرر کروا کر آئندہ انتخابی عمل کے لئے لائحہ عمل شروع کروایا گیا جس میں ہر حلقہ سے امیدواروں نے الیکشن سیل میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر کو کاغذات نامزدگی جمع کروائے جس کے اگلے مرحلے میں بعض امیدواروں کے خلاف کاغذات کے خلاف بیانات جمع ہوئے اور کچھ امیدواروں کے کاغذات نامزردگی مسترد کیے گئے جس کے بعد امیدواروں نے اپنے بیان جمع کروایئے ، 25 جولائی 2018 کی تاریخ الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات کے منتخب کردی گئی ہے ،جنرل انتخابات سے قبل ہی ملک بھر میں سیاسی گہما گہمی بھرپور طریقے سے شروع ہو چکی، کچھ جماعتوں نے اپنے امیدواروں کو پارٹی کی ٹکٹیں انائونس کردی ہیںتو کچھ جماعتیں سوچ بچار کا سہارا لے کر وقت گزار رہی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی طرف سے تاحال ٹکٹیں انائونس نہیں کی گئی مگر پی ٹی آئی کی قیادت نے کچھ حلقوں کو چھوڑ کر ٹکٹیں انائونس کردیں مگر ٹکٹوں کی تقسیم کو غیرمنصفانہ تقسیم کا نام دے کر کارکنان اپنے کپتان سے نالاں ہوگئے،بلکہ بعض علاقوں سے ٹکٹوں کے امیدواروں ے اپنے کارکنان کے ہمراہ بنی گالہ کا رخ کرلیا اور قائد کی رہائش گاہ کے باہر سراپا احتجاج بن گئے۔ جنرل انتخابات سے قبل شروع ہونیوالی سیاسی سرگرمیوں میں پارٹی کی قیادتوں کی طرف سے جلسے منعقد کیئے جارہے ہیں، امیدوار بھی اپنے اپنے حلقوں میں کمپین شروع کرنے لگے اور عوام میں آنا جانا شروع کردیا اسی صورتحال کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے حلقہ سے اپنے وعدوں پر پورا نااترنے پر نالاں والی عوام کے پاس بھی جاکر روٹھوں کو منانا شروع کر دیا، اسی طرح ہر انتخابات سے قبل ہی ایسا دیکھنے کو ملتا ہے۔
یہی امیدوار پانچ پانچ سال نظر نہیں آتے اور انتخابی دنوں میں عوام میں آتے ہیں اور دلاسے دے کر ووٹ دینے کی تسلی لے کر واپس چل دیتے ہیں ،باشعور عوام ہمیشہ اہی انہی امیدواروں کے خوابوں میں آکر اپنا حق (ووٹ) انہیں دے دیتی ہے جس کے بعد پانچ سال انہی کی خامیوں کا رونا روتی ہے، 2018 کا سال فیصلے کا سال ہے ،آزمائے ہوئے کو آزمانا کسی بے وقوفی سے کم نہیں ہے،ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی پانچ پانچ سال نظر نہ آنے والے بھی آئے روز بن بلائے عوام کے پاس آتے ہیں اور ان کا حال اور خیریت ایسے دریافت کی جاتی ہے جیسے ان کا بہت ہی چہیتا اور اپنا کافی عرصے کے بعد ان سے ملنے آیا ہے۔مگر ایسا کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔
یہ وہی شخصیات ہوتی ہیں جو صرف ووٹ لینے آتی ہیں، قارئین ہمیں احتساب کی ضرورت ہے اور سوچ کی ضرورت ہے آخر ہم انہیں کیوں ووٹ دیں،ان میں کیا خوبی ہے ،انہوں نے ہماری فلاح کے لئے کیا کروایا جو ہم ان کو ووٹ دیں ، اس فیصلہ کن مرحلے میں ضرورت ہے کہ عوام اب سابقہ ادوار میں مسلط حکمرانوںکے دلاسوں میں آنے کی بجائے اپنی آواز کو سنیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں، دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے چند افراد انہی امیدواروں سے چند روپے وصول کرکے اپنا قیمتی ووٹ انہیں فروخت کردیتے ہیں۔
اگر ہم اپنا ووٹ بیچیں گے تو ہم کل کو کس منہ سے ان حکمرانوں سے اپنا حق مانگیں گے اور اگر آپ نے اپنا فروخت کیا ہے تو ہے کل کو آپ کو کوئی مسئلہ درپیش آتا ہے تو آپ انہی صاحب کے پاس جائیں گے تو آپکا کام کرنے یا آپکی دادرسی کرنے کی بجائے الٹا آپ کو بعزت کرکے بھجوایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ ووٹ دے کر کوئی احسان نہیں کیا ووٹ کے بعوض بھی پیسے لیے ہیں۔فیصلہ کن مرحلہ قریب ہے 25 جولائی کی شام کو فیصلہ ہو گا کہ کون کامیاب ہوا اور کون ہار کا ڈھنڈورہ پیٹ رہا ہے، آج فیصلہ کریں گے تو کل کوووٹ دیں گے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ روٹھوں کو منانے والوں کو بری طرح نظر انداز کرکے کسی نئی سیاسی چہرے کو ووٹ دے کر کامیاب کروایا جائے کہ جس پر آپ کو اعتماد ہوکہ یہ آپ کی فلاح کے لئے کام کرے گا، کسی نظریاتی شخص کو ووٹ دیں۔ذرا نہیں پورا سوچیئے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔