سیاسی جماعتوں کے سیاسی امیدوار کس طرح کے ہوتے ہیں یہ وہ بنیاد ی بات ہے جسے عوام کے لئے سمجھنے اور پھر اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ کیسے امیدوار میدان میں اتارتے ہیں ، کسیے امیدواروں کو ٹکٹ دیئے جاتے ہیں یہ امر بھی ذہن کے گوشۂ یاد میں حفظ ماتقدم کے طور پر یاد رکھیں۔ ہر سیاسی جماعت کی کمیٹی ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہے جو اس کی جماعت کا ممبر ہوتے ہوئے عوام میں بھی مقبول ہو۔ اب مقبولیت کس طرح کی ہو وہ ایک الگ سوال ہے۔ ویسے کچھ پارٹیاں ایسی بھی ہیں جن کے امیدوار عوام میں بے شک مشہور نہ ہوں مگر پھر بھی وہ سیاسی جماعت کی حمایت پر کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
اگر یہی اسلوب تمام جماعتیں اختیار کر لیں تو کافی حد تک عوام کو سہولت مل سکتی ہے۔امیدوار کی خاص مشہوری کی ایک وجہ تو صاف ہے کہ اگر امیدوار عوام میں مشہور ہوگا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کوئی جاگیردار، وڈیرہ، سرمایہ دار ہی ہوگا۔ اور اگر امیدوار عوامی مشہوری نہ رکھتا ہوگا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ عام فرد ہوگا۔ اور یہی وہ عام فرد ہوگا جو عوامی مسائل کی طرف توجہ دے سکے گا۔کچھ سیاسی جماعتیں شہرت کی بھوکی ہوتی ہیں اور کچھ ایسی بھی ہیں جنہیں شہرت عطیۂ خدا وندی کی طرح ملا کرتی ہیں۔ جو شہرت کی بھوکی ہیں ان کا تو یہ ایک پیشہ ہے کہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے اسمبلی پہنچنا ہے اور اپنی من مانی کرنی ہے۔
ایسے امیدواروں کی عملی سیاست انتہائی گھٹیا معیار کی ہوتی ہے یعنی یہ نہ عوام کو اپنی تقریروں سے متاثر کر سکتے ہیں اور نہ ہی انہوں نے عملی صورت میں عوام کے لئے کچھ کیا ہوتا ہے، نہ تہذیب و شائستگی ان کے قریب سے گزری ہوتی ہے۔ اور نہ ڈھنگ، طریقہ انداز بات چیت صحیح ہوتا ہے۔اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کا مظاہرہ آپ سب روز ہی میڈیا پر ٹاک شاک پروگراموں میں دیکھتے رہتے ہیں۔
عوام امیدواروں کو اس لئے ووٹ دیتے ہیں کہ یہ افراد اسمبلی میں پہنچ کر ملک کے لئے کام کریں، عوامی مسائل کے لئے کام کریں ، قوم و ملک کے لئے قانون بنائیں اور نہ صرف قانون بنائیں بلکہ اس پر عمل در آمد بھی کرائیں، ان کا تحفظ بھی کریں۔ عالمی سطح پر اپنی سیاسی حکمت عملی اور انداز سیاست سے متاثر کریں تاکہ ملکی سیاسی لیڈروں کی ایک اعلیٰ امیج بن سکے۔لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا عوام ایسے سیاسی امیدواروں کو منتخب کر بیٹھتے ہیں جو اس ملک و قوم کے لئے انتہائی مضر ثابت ہوتے ہیںاور مقدم و مقدس اسمبلی میں اسّی فیصد ایسے ممبران نکلتے ہیں جن پر بے شمار کیسز عدالتوں میں زیرِ سماعت ہوتے ہیں اور مقدمات اپنی اپنی نوعیت کے لحاظ سے سنگین بھی ہو تے ہیں۔
National Assembly
یعنی قومی اسمبلی ایک ایسا ادارہ ہے جہاں ملک و قوم کی قسمت سنوارنے کے لئے ممبران منتخب کئے جاتے ہیں مگر بد سمتی سے وہ خود ہی مقدمات کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں لازمی امر یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں ہی قصور وار ہوتی ہیں جنہوں نے امیدوار کی صرف مشہوری دیکھی ان کی ساکھ کا پڑتال نہیں کیا۔ اور امیدوار کی حیثیت سے ٹکٹ دے کر الیکشن میں کھڑا کیا ۔ اگر یہ جماعتیں اپنا مفاد نہ دیکھر کر ملک و قوم کے لئے مفاد کا احساس کرتیں اور اسی روشنی میں اچھے کردار کے امیدواروں کو ٹکٹ دیتیں تو ملک میں نہ کرپشن بڑھتا اور نہ دیگر سماجی جرائم بڑھتے، اور نہ ہی اسمبلی ممبران عوام کو گِری ہوئی نظروں سے دیکھتے۔
یوں یہ معاملہ تو آئینے کی طرح بالکل صاف ہے کہ سیاسی جماعتیں صرف اقتدار کے حصول کے لئے غلط امیدواروں کو ٹکٹ دیکر الیکشن میں کھڑا کرتی رہی ہیں جس کی وجہ سے آج تک نہ ملک ترقی کر سکا ہے اور نہ ہی معاشرے میں بہتری کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ہمارے ملک کو آزاد ہوئے نصف صدی سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے مگر افسوس صد افسوس کے اس طویل مدت کے گزر جانے کے بعد بھی ہمارے ملک میں سیاسی جماعتوں کا ایک قومی مزاج نہ بن سکا تبھی تو یہاں کے عوام کو بار بار یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ان کا قومی اتحاد خطرے میں ہے۔
ملک کو باہر کے مقابلے میں اندر سے خطرہ لاحق ہے ، جو ظاہر ہے کہ قومی اتحاد کے نعرے لگانے سے دور نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے تو نعروں کے بجائے دلوں کو جوڑنا پڑے گا۔ حق و انصاف کی ایسی فضا قائم کرنا ہوگی جو کمزوروں اور طاقتوروں یا اقلیتوں اور اکثریت کو باہم نزدیک لا سکے۔ اس مقصد کے لئے ایک نئی سمجھ اور نیا جذبہ بھی پیدا کرنا پڑے گا جو دن بدن سیاست دانوں کے اندر پیوست ہو سکیں۔ اگر اس اتحاد اور افہام و تفہیم، قومی مزاج کی صورت میں سیاسی جماعتوں کے اندر نمودار ہو جائے تو پھر ان کے امیدوار بھی اچھے اور مخلص آئیں گے اور عوام کو بھی ووٹ دینے میں خوشی محسوس ہوگی۔
کیونکہ اچھے لوگوں کی قدر کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ آگے چل کر ملک و قوم کی خدمت کے جذبے کو اپنا شعار بنا سکیں۔ وگرنہ تو ہمارے ملک میں آج تک جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ سب کچھ آپ کے سامنے ہے اور اگر عوام نے آج بھی اپنی آنکھیں نہ کھولیں تو پھر وہی سب کچھ ہوگا جو آج تک ہوتا چلا آیا ہے۔آج کل حسبِ معمول مثبت اور منفی تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ میڈیا پر جاری و ساری ہے۔ کہاں کون جیتے گا اور کہاں کس کی حکومت بننے والی ہے اس پر زور ہے کہ کون جیتے گا اور کہاں کس کی حکومت بنے گی اس کا مطلب ہے کہ پھر وہی کہانی دہرائی جانے والی ہے کہ الیکشن جیتو اور عوام کا جینا دوبھر کرو، یعنی پُر فریب وعدوں کے ذریعے منتخب ہو جائو اور پھر عوام کے ساتھ وہی دھوکا و فریب کا کھیل کھیلو جو اب تک کھیلا جاتا رہا ہے۔
Inflation
سوال یہ ہے کہ الیکشن کا وقت ہر پانچ سال میں ایک بار آتا ہے اور اُس ایک بار میں عوام کی ضرورت سیاست دانوں کو ہوتی ہے تو عوام کیا اب تک سوئی ہوئی ہے یا پھر عوام نے اپنی قسمت کی لکیروں کو مٹا دیا ہے ، صاحبو ! اٹھو ابھی وقت ہے اپنا مستقبل سنوارنے کا، اپنے ملک کی باگ دوڑ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دینا جو خالصتاً آپ کے ملک اور آپ کی خوشنودی پر نظریں جمائیں نہ کہ ایسے لوگوں کو جو ہر بار آپ کو دھوکہ ، فریب ، افراتفری، بے سکونی، مہنگائی، بیروزگاری ہی دیتے رہے ہیں۔اس بار اگر آپ سب نے کوئی کوتاہی کی تو یاد رکھئے کہ آپ کا مقدر سو جائے گا اور اسی طرح آپ بے آسرا رہیں گے، کیونکہ امیدوں کے سہارے چراغ روشن نہیں ہوا کرتے بلکہ چراغ کو جلتا رکھنے کے لئے تیل کی ضرورت پیش آتی ہے۔
آج ایک پتے کی بات بتا رہا ہوں جو ایک بار پھر دہرائی جا سکتی ہے، جو آپ تمام کو ناپسند اور طبعیت پر گراں گزرتی ہے۔ میرا اشارہ لازمی موضوع کے حساب سے امیدوار کے سلسلے میں ہی ہے ، ہر امیدوار دوڑا بھاگا پھر رہا ہے کچھ دنوں کے بعد اخبارات بھی لکھنا شروع کر دیں گے کہ فلاں نے اپنے اتنے امیدوار میدان میں اتار ہے ، اور فلاں امیدوار جاگیردار ہے فلاں امیدوار وڈیرہ اور سرمایہ دار ہے ۔ دراصل ہوتا یہی ہے کہ کچھ جماعتیں اس مقولہ پر عمل کرتے ہیں کہ ”اپنا قد اونچا رہے، دنیا جائے بھاڑ میں” موجودہ معاشرے میں ایسی ذہنیت رکھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ اپنے قد کو اونچا رکھنے، قد کی برقراری کے لئے مختلف حربے اپنانے اور اپنی کامیابی کے لئے دوسروں کے کندھوں کا استعمال کرنے میں کچھ امیدوار ذرہ برابر بھی دریغ نہیں کرتے۔
ان کی سوچ کے مطابق ہوتا یہی ہے کہ وہ صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں، دوسوں سے ان کا کیا لینا دینا۔ ایسی بیشتر مثالیں ماضی کے انتخابات میں موجود ہیںاگر آپ کی یادداشت سلامت ہے تو ماضی میں جھانکئے گا ضرور! اپنا سر اونچا رکھنے کے لئے عوام کے قد کو گھٹانے کی ذہنیت اگرچہ ہر شعبہ زندگی کے لوگوں میں ہوتی ہیں لیکن سیاسی لوگوں میں ایسی باتوں کا پایا جانا عام بات ہے۔ اختتام کلام بس اتنا کہ سیاسی جماعتیں اچھے اور لائق امیدوار میدان میں اُتاریں اور عوام ایسے لوگوں کو منتخب کریں جو ملک اور عوامی بھلائی کے لئے محنت کر سکیں۔ تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی