پاکستانی سیاست میں نئے نئے کھلاڑیوں کی آمد پچھلے کچھ عرصہ سے جاری و ساری ہے۔ عمران خان کا مینار پاکستان پر جلسہ سیاسی طاقت کا بھرپور مظاہرہ تھا۔ مگر یہ عروج زیادہ دن نہ چل سکا اور کپتان کا گراف گرتا چلا گیا۔ پھر اچانک “مولانا” کی آمد ہوئی اور اسی گرائونڈ میں جلسہ کر کے قادری صاحب نے انقلابیوں کی فہرست میں اپنا نام درج کروایا۔
پھر لانگ مارچ کا ڈھونگ رچایا گیا اور اب انقلاب مارچ کی دیگ پکائی جا رہی ہے۔ مبصرین کے مطابق طاہر القادری کے اس سارے ڈرامے کا مقصد صرف اور صرف انتخابات کا التواء ہے۔
آرٹیکل 62, 63 کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں مگر الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کا مطالبہ انتخابات کے التواء کی جانب واضح اشارہ ہے۔اس مطالبے کی تحریک انصاف ، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق بھی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔
گزشتہ روز طاہر القادری نے سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے لئے جو آئینی درخواست دائر کی اس میںانہوں نے مئوقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل کرتے وقت آئین کے آرٹیکل 213 اور 218 کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔
حکومت اور اپوزیشن نے ساز باز کر کے پانچوں ممبران کے لئے پارلیمانی کمیٹی کو تین تین نام دینے کی بجائے بغیر بحث کے اپنی مرضی کے لوگ مقرر کر دئیے ہیں۔
کمیشن کی شفافیت کے لئے یہ طریقہ کار غیرآئینی و غیر قانونی ہے جو عوام کے مینڈیٹ کی توہین ہے۔ طاہر القادری نے الیکشن کمیشن کو تشکیل نو تک کام سے روکنے کے لئے ایک علیحدہ درخواست بھی دائر کروائی۔مسٹر قادری کے مطابق اس تشکیل نو سے انتخابات کے بروقت انعقاد میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہو گی اور یہ سب دس دن کے اندر مکمل کیا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم نے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے سب ارکان کی تقرری کو آئینی قرار دیا اور کہا کہ یہ الیکشن کمیشن کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ شفاف انتخابات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔یہی واحد حل ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون اور کیوں انتخابات کے التواء اور موجودہ الیکشن کمیشن کی تحلیل چاہتا ہے۔
Tahir ul Qadri
اگر غور کیا جائے تو فرشتہ صفت علامہ طاہر القادری آرٹیکل باسٹھ، تریسٹھ کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لئے سب سے زیادہ واویلا کر رہے ہیںوہ خود جنرل مشرف کے آمرانہ دور حکومت میں وزارت عظمیٰ کے خواب دیکھتے رہے ہیں۔
تحریک انصاف پرویز مشرف کے اقتدار پر قابض ہونے پر مٹھائیاں تقسیم کر رہی تھی۔ایم کیو ایم جو مشرف کے دور حکومت میں پھلی پھولی وہ بھی قادری کی حمایت کرتی نظر آتی ہے۔
مسلم لیگ ق جس نے مشرف کو با وردی صدر کو منتخب کروایا وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں۔آئین شکن آئین کی بالادستی کی باتیں کریں تو شکوک و شبہات کا جنم لینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
جب زیادہ تر سیاسی جماعتیں بروقت انتخابات پر متفق نظر آئیں اور انتخابات کے التوا ء کی کوئی اور صورت نظر نہ آئی تو الیکشن کمیشن پر بے جا تنقید کر کے اسے پریشرائز کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
جب کرپٹ لوگوں کو شفاف انتخابات ہو جانے کی صورت میں اپنا کوئی مستقبل نظر نہ آیا تو ان اوچھے ہتھکنڈوں سے کام لیا جانے لگا۔ان کا مقصد الیکشن کمیشن میں اپنی مرضی کے لوگوں کو لانا ہے جو ان کے سیاہ کو سفید ظاہر کر کے ان کی کرسی کو بچائے رکھیں تا کہ وہ جعلی ڈگری پر الیکشن لڑسکیں اورمزید پانچ سال عوام کا خون چوس سکیں۔ مگر اس بار شاید وہ اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہو سکیں۔
وہ دن دور نہیں جب عوام صاف شفاف انتخابات کے ذریعے محب وطن لوگوں کو منتخب کریں گے اور پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔۔۔۔ انشاء اللہ
Tajammal Janjua
تحریر: تجمل محمود جنجوعہ tmjanjua.din@gmail.com 0301-3920428