تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری مشہور محاورہ ہے کہ “اپنی داڑھی غیروں کے ہاتھ پکڑوانا” جس کا واضح مطلب ہے کہ اپنے مسئلہ کا حل غیروں سے ڈھونڈنایا غیروں سے کہہ دینا کہ ہمارا فیصلہ آپ کردیویں کہ وہ تو آپ کو قعرمذلت ہی میں گرائیں گے اپنی عزت کے محافظ آپ خود یا آپ کے ساتھی (کولیگ )تو ہوسکتے ہیں کوئی دوسرا کیسے ہوسکتا ہے؟ممبران اسمبلی کی ناہلیت یا اہلیت کا کام الیکشن کے انعقاد کے کچھ عرصہ تک توالیکشن کمیشن کے قائم کردہ الیکشن ٹربیونلزکے پاس ہوتا ہے یا پھر خود الیکشن کمیشن کے پاس۔ اگر کسی کے کردار پر مزیدکوئی اس کے بعد مسئلہ اٹھ کھڑا ہو تو پارلیمنٹ خود اسے اپنی کسی کمیٹی کے ذریعے طے کرسکتی ہے جب پانامہ کا مسئلہ اٹھا تو پرانے سیانے پارلیمنٹرینز نے یہی کہاکہ اپنے گھر میں ہی اس مسئلہ کا حل ڈھونڈیں مگر جن کے ذہن میں اقتدار کا غرور سما چکا تھاوہ کوئی بات سننے کو تیار ہی نہ تھے براہ راست سپریم کورٹ میں جا دھمکے۔
پیپلز پارٹی کا خیال تھاکہ الیکشن اصلاحات کے ساتھ ایسی آئینی ترامیم بھی کر لی جائیں جس سے کوئی ہم لاکھوں عوام کے نمائندوں کو بے عزت کرکے اسمبلیوں سے ہی کان سے پکڑ کر باہر نہ نکال سکے اور ضیاء الحق کی قائم کردہ آرٹیکل 62کی خصوصی دفعات جن میں ابہام موجود ہے انہیں ختم کردیا جائے یا پھر ان میں ایسی ترامیم کر لی جائیں جس سے اسمبلی میں توڑ پھوڑ سے بچا جاسکے اور اسمبلی ممبران کی عزت سر عام نیلام نہ ہومگر جب اقتداری ممبران ہی نہ مانے تو پھر ترامیم کیسے ہوسکتی تھیں؟پارلیمنٹ متحرک ہوتی تگڑا لاء بناتی تو سپریم کورٹ میں ایسے مسائل نہ جاتے جنہوں نے 184پر بھی اپنے اختیارات معمولی مسائل تک بھی خود ہی بڑھا لیے ہیں پارلیمنٹ کو چھوڑ کر جب اپنے اختلافی مسائل ممبران نے جب دوسرے فورم کے حوالے کردیے تو اس کا نتیجہ سال سے زیادہ ٹاک شوز اور دھما چوکڑی کے بعد نااہلیوں حتیٰ کہ وزیر اعظم کے بھی اسمبلی سے دھکا دے کر باہر نکال ڈالنے پر منتج ہونا تھا۔اب بڑی مخالف پارٹی کے سیکریٹری جنرل ترین صاحب کو بھی گھر جانا پڑا”دشمن مرے خوشی نہ کریے سجنا وی مر جانا”ایک گراتو دوسروں نے تالیاں بجائیں دوسرا گرا تو پہلوں نے خوشیاں منائیںاور عمران خان خوش قسمتی سے بچ رہے حالانکہ نیازی لیکس کے خود بنانے کا واضح بیان دیا اور لاکھوں روپے اسلام آباد میں پلاٹ خریدنے کے لیے ایڈوانس جمع کروائے مگر ان کا ذکر ملکیتوں میں نہ کرسکے جس سے نااہل کردیا جانا واضح تھا اب ن لیگی چیخ و پکار کر رہے ہیں کہ انصاف کا ترازو برابر نہیں تول رہا۔کچھ بھی ہو کیا کبھی افواج پولیس عدلیہ نے بھی اپنا احتساب کسی دوسرے ادارے کو کرنے دیا ہے؟ ان کی ادارہ کے اندر بنی کمیٹیاں اور مخصوص ادارے اس کام کو کرتے رہتے ہیںاور باہر کے لوگوں کو اس کی کانو ںکان خبر بھی نہیں ہوتی۔
پارلیمنٹ کے حوالے سے تو عمران خان تواتر سے اس پر لعنت بھیجتے رہے ہیں اور کہتے رہے ہیں کہ اس میں سارے چور اور ڈاکو بیٹھے ہیں اور خود ماہانہ بطور ممبر تنخواہ وصول فرماتے اور مہینوں تک اس میں آنا مناسب خیال نہیں کرتے سب کچھ کے باوجود پارلیمنٹ نہ ختم ہوگئی ہے نہ بند ہو گئی تھی کہ وہاں ایسابل ہی پاس نہ ہوسکا کہ ہم اپنے ممبران کے بارے میں خود غور وغوض کیاکریں گے دراصل اسمبلی میں موجود اپنی سیاسی پارٹی کے ساتھیوں کو چھوڑ کر کوئی بھی ایکدوسرے کا احترام کرنے کو تیار نہ ہے حتیٰ کہ گالی گلوچ اور غیر پارلیمانی گفتگوئیں کرتے رہتے ہیںایکدوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے علاوہ کوئی دوسرا کام وہاں نہیں ہوتاکیا کبھی ممبران نے شیطان کی آنت کی طرح بڑھتی ہوئی مہنگائی ،غربت ،بیروزگاری جیسے معاملات کا بھی ذکر کیا ہے؟ نہیں بالکل نہیں۔ کسی دوسرے کے احتساب کی بات کریں تو وہ سبھی اکٹھے ہو کر جواب دیں گے کہ ہمارا اپناا یک احتسابی سسٹم موجود ہے ہم خود ہی کریں گے۔آپ ہمارے معاملات میں مداخلت سے بازرہیں ۔اسی طرح افواج کے جنرلز پر آپ احتسابی تلوار نہیں لٹکا سکتے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ہمارا اپنا اندرونی سسٹم موجود ہے اور وہی ہمارے لیے بہترین ہے ثابت یہ ہوا کہ کوئی بھی ادارہ اپنے ساتھیوں کے احتساب کے لیے آپ ممبران اسمبلی کو اجازت نہ دے گا اور نہ ہی اسمبلی کو یہ اجازت کہ آپ ان کے بارے میں کوئی قانون بنائیں یا آئینی ترمیم کر ڈالیں ۔آپ ممبران اسمبلی ہیں کہ اپنے احتساب کے لیے آپ خود ہی سپریم کورٹ جاپہنچے ہیں اور وہ مارا اور وہ گراکہہ کر بغلیں بجاتے پھرتے ہیں سپریم کورٹ توآپ کو جو زیادہ سے زیادہ سزا دے سکتی تھی وہ دے ڈالی ہے اب جو بھی کسی اسمبلی ممبر کے بارے میں شکایت لے کر پہنچے گا۔
اس کا سپریم کورٹ سے یہی حشر ہو گا کہ ممبران اسمبلی خدا نخواستہ کوئی پیغمبرانہ کردار تو نہیں رکھتے عام گناہ گار مسلمان ہیں آخر کوئی نہ کوئی خامی اور جھوٹ تو نکل ہی آئے گاحتیٰ کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے جب دس سال کادیس نکالا حکومت سے حاصل کیا تو لندن جانے کے لیے کسی اسلامی ملک کا اقامہ بنانا ضروری تھا اس وقت بہتر خیال کیا ہوگاچلو بیٹے کی کمپنی کے ہی ڈائریکٹر بن جاتے ہیں تاکہ لندن جاسکیںکبھی ممبران اسمبلی اکیلے بیٹھ کر غور کریں تو وہ بھی اپنے آپ کوکسی در خواست کے آتے ہی نا اہل ہی سمجھیں گے کہ ایسا ہونا لازمی امر ہے منتخب ممبران کا ایسا حشر نشرانہوں نے خود ہی کروایا ہے اب بھی اس پر خصوصی غور کریں اور اپنے گھر کو واپس آجائیں تو بہتر ہو گا کہ”صبح کا بھولا ہوا شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا ہوا نہیں کہتے”کوئی غیر منتخب بیورو کریٹ جج جنرل آپ منتخب ممبران سے اپنا احتساب نہیں کروانا چاہتا اور آپ لاکھوں ووٹوں کے نمائندہ منتخب ممبران اپنے فیصلے دوسرے ادارہ سے کرواتے پھرتے ہیں اور آپ کی اسمبلیوں سے چھٹیاں ہورہی ہیںایک گروہ دوسرے کی نااہلی پر اور دوسرا گروہ پہلے کی نا اہلی پر خوشیاں نہ منائے کہ در اصل دونوں ہی گھاٹے میں ہیں اور بالخصوص پورا سال منتخب ممبران اسمبلی کا ڈھول بجنے کے بعداورٹاک شوز میں ایسی بے عزتی کہ سننے دیکھنے والے بھی لوگ کہتے ہیں کہ”اب بھی شرم تم کو مگر نہیں آتی”اتنے کرپٹ اور جھوٹے ہوتو ڈوب کیوں نہیں مرتے؟مل جل کراسمبلی کی احتسابی کمیٹی کا قانون بنا کر آئینی ترمیم کر ڈالووگرنہ سارے کے سارے بے عزت ہوکر رہو گے کہ یہی آپ کا مقدر ہے جسے کوئی ٹال نہیں سکتا کہ یہی قضا و قدر کا فیصلہ اٹل ہے۔