تحریر: سید توقیر زیدی سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے وزیراعظم نوازشریف کے خلاف عمران خان کی درخواست یہ اعتراض لگا کر واپس کردی ہے کہ اس معاملے پر براہ راست سپریم کورٹ میں درخواست دائر نہیں کی جاسکتی۔ درخواست گزار نے متعلقہ فورم سے رجوع نہیں کیا۔ عمران خان نے پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے درخواست وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز، حسن نواز، حسین نواز، کیپٹن (ر) صفدر اور اسحاق ڈار کے خلاف دائر کی تھی۔ پاناما لیکس میں کہا گیا ہے کہ حسن نواز اور حسین نواز نے آف شور کمپنیاں بنا رکھی ہیں، دونوں حضرات چونکہ وزیراعظم کے صاحبزادے ہیں اس لئے وزیراعظم کو بھی درخواست میں فریق بنایا گیا ہے۔ اس سے پہلے عمران خان نے اسی مفہوم کی درخواستیں الیکشن کمیشن اور سپیکر قومی اسمبلی کے پاس بھی دائر کر رکھی ہیں، جن پر قانون کے مطابق کارروائی جاری ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان دو فورموں پر اگر ایک درخواست پہلے سے زیر سماعت یا زیر غور ہے تو پھر سپریم کورٹ میں جانے کی ضرورت کیا تھی؟ اس سے پہلے جماعت اسلامی کی اسی نوعیت کی درخواست بھی رجسٹرار آفس کی جانب سے ان ریمارکس کے ساتھ واپس کی جاچکی ہے کہ سپریم کورٹ ایسی درخواست دائر کرنے کیلئے براہ راست فورم نہیں ہے۔ سپریم کورٹ عرفان گل کیس میں قرار دے چکی ہے کہ جس دادرسی کیلئے متبادل فورم موجود ہو، اس کی براہ راست درخواست سپریم کورٹ میں دائر نہیں کی جاسکتی۔
Election Commission
اس درخواست میں تین ارکان قومی اسمبلی کی نااہلیت کا معاملہ ہے جن میں وزیراعظم نوازشریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور رکن قومی اسمبلی کیپٹن (ر) صفدر شامل ہیں۔ ان تینوں سمیت وزیراعظم کے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے خلاف بھی درخواست دائر کی گئی۔ اول الذکر تین کو الیکشن کمیشن نااہل قرار دے سکتا ہے اور ان کی نشستوں کو خالی قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ مؤخر الذکر تینوں نہ تو کسی اسمبلی کے رکن ہیں اور نہ ہی کسی سرکاری عہدے پر فائز ہیں اس لئے ان کو پیش بندی کے طور پر تو نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ان کے کیس مختلف نوعیت کے ہیں البتہ ان کی وجہ سے وزیراعظم کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ جب اس قسم کی درخواستوں کی سماعت کیلئے الیکشن کمیشن کا فورم موجود ہے اور وہاں پہلے سے درخواستیں دائر بھی ہیں تو پھر سپریم کورٹ میں ان درخواستوں کے دائر کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ کیا قانون دانوں کو اس فیصلے کا علم نہ تھا یا انہیں پارٹی چیف نے جو حکم دیا انہوں نے اس کی تعمیل کردی۔
دونوں جماعتوں کے پاس ماہرین قانون موجود ہیں جو اس قانونی نکتے سے بے خبر تو نہیں ہوں گے تو پھر انہوں نے یہ درخواستیں سپریم کورٹ میں کیوں دائر کردیں۔ بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ یہ سب کچھ ”مور اوور” کے طور پر کیا گیا۔ عمران خان کی دو الگ الگ درخواستیں الیکشن کمیشن اور سپیکر قومی اسمبلی کے پاس موجود ہیں اس کے باوجود وہ سپریم کورٹ چلے گئے۔ مزید برآں انہوں نے الگ سے سیاسی جلسے جلوس بھی شروع کر رکھے ہیں غالباً ان کا خیال ہوگا کہ سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے سے ان کا سیاسی موقف مضبوط ہوگا۔ اگر واقعی یہی خیال تھا تو مقصد حاصل نہیں ہوا، دونوں جماعتوں کی درخواستیں واپس ہوچکی ہیں۔ ویسے عمران خان کو بیرسٹر اعتزاز احسن نے بھی مشورہ دیا تھا کہ وہ یہ درخواست لے کر سپریم کورٹ نہ جائیں لیکن عمران خان اپنی مرضی کے مالک ہیں وہ دوسروں کے مشوروں پر کم ہی کان دھرتے ہیں۔
ممکن ہے انہوں نے سوچا ہو کہ اعتزاز احسن کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے اس لئے ان کا مشورہ نہیں ماننا چاہئے لیکن ان کی اپنی جماعت میں بھی تو آئینی و قانونی ماہرین موجود ہیں۔ انہوں نے بھی اس سلسلے میں انہیں کوئی مشورہ دیا یا نہیں، ہم اس سلسلے میں کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اب ان کی درخواستیں الیکشن کمیشن اور سپیکر کے پاس ہیں دیکھیں ان پر کیا فیصلہ ہوتا ہے۔ بعض قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ عمران خان کو یہ تو معلوم تھا کہ سپریم کورٹ اس مقصد کیلئے درست فورم نہیں ہے لیکن انہوں نے یہ درخواست محض دباؤ بڑھانے کیلئے دائر کردی تھی۔ تحریک انصاف غالباً نااہلی کے اس معاملے کو میڈیا میں زندہ رکھنے کیلئے سپریم کورٹ گئی تھی۔ اب میڈیا میں تو 3 ستمبر کا جلوس یا مارچ ہی جگہ پائے گا’ سپریم کورٹ کی حد تک تو اس معاملے کو ختم سمجھا جانا چاہئے۔٭٭٭٭٭٭