پاکستان کی کچھ سیاسی جماعتیں جو سابقہ دور میں اقتدار کے اونچے ایوانوں میں بیٹھ کر عیاشیاں تو کرتی رہیں مگرعوامی کاموں میں اُن کی کارکردگی مائنس صفرسے آگے نہ بڑھ سکی تھی۔انہی جماعتوں کے عسکری وِنگ کے لوگ بھتے کی پرچیاں بھی تھماتے رہے ۔اور اپنے خلاف زبان کھولنے والوں کو ملکِ عدم بھی پہنچاتے رہے ۔ایک ایک دن میں شہرِ کراچی سے 25,25لاشیں لوگ اٹھاتے رہے ۔مگر ان میں سے کسی کو بھی شرم نہ آئی۔جب لوگ اور میڈیا ان سے سوال کرتے تو وہ بڑے دھڑلے کے ساتھ یہ بھی کہتے رہے کہ ہمارے پاس اختیارات ہی نہیں ہیں۔ہم حکومت میں تو بہر حال رہیں گے مگر ہم کر کچھ نہیں سکتے ہیں۔
خوب پردہ ہے چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں…. ڈھٹائی کا یہ عالم کہ اقتدار کی بندبانٹ کے حصے ہرہر لمحہ لوٹے جاتے رہے۔ نہ تو یہ لوگ قانون سازی کر سکے اور نہ ہی قانون کی عملداری کرا سکے۔عجب تماشہ تھا کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے کراچی کے تھانوں میں ایف آئی آرتک درج نہیں کراسکتا تھا اور آج بھی یہی کیفیت جوں کی توں موجود ہے۔قاتلوں کا تو لوگوں کو علم تھا مگرقانون کے نام نہاد رکھوالے اُن سے ہمیشہ ہی لا علم رہتے ہیں ۔قاتلوں کے تو بہت سے ولی وارث تھے مگر مقتولوں کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔قتل و غارت گری اور کرائم ریٹ کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میںگذشتہ پانچ سالوںمیں اس قدر بڑھا کہ پاکستان کی ماضی کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔
بھتہ مافیہ،قاتلوںاور اُن کے سر پرستوں کی وجہ سے کراچی کی اکثرصنعتیں یا تو بند کردی گئی ہیں یا کراچی سے شفٹ ہو چکی ہیں حکومتی کولیشن پارٹنرز کی گذشتہ پانچ سالہ کار کردگی کے نتیجے میں مل جل کر ملک کا خزانہ لوٹا گیا جو ادارہ جس کے ہاتھ لگا اُس کااُس نے لوٹ کرحشر بگاڑااورچپ ُسادھ گیا۔دنیا کی بہترین ایئر لائن دنیا کی سب سے گندی ایئر لائن بنا دی گئی ۔شپنگ کارپوریشن آف پاکستان کے ریکارڈ کو گذشہ دس سالوں میں دو مرتبہ جلادیا گیاتاکہ لوٹ کے مال کا اندازہ ہی نہ رہے کہ وہ کن ہاتھوں نے لوٹا اور وہ کہاں گیا؟؟؟ریلوے کی کار کردگی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ٹرانسپورٹر کے سردا ر نے اُس ادارے کو بار برداری کے قابل بھی نہ چھوڑا۔اسٹیل مل بھی لٹیروں کی دست برد سے نہ بچ سکا۔کسکس سرکاری ادرے کی تباہی کا رونا رویاجائے۔
U.S.
آج یہ تمام لٹیرے مکافاتِ عمل سے خوفذدہ دکھائی دے رہے ہیں امریکہ کی یاری میں ان لوگوں نے اپنا مذہب تک بیچ دیا ہے۔ان میں سے ہر ایک کے پاس عسکری ونگز ہیں ۔کسی نے ہزاروں شُوٹرز اکٹھا کئے ہوے ہیں کسی نے اس سے بھی بڑھ کر ایک لاکھ، آرمی اور قریباََ پندرہ ہزار شوٹرز اکٹھے کئے ہوے ہیںکسی نے دھاڑیلوں کی فوج اکٹھی کی ہوئی ہے اور یہ سب ملک میں افراتفری کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔اور یہ سب کے سب الیکشن کے انعقاد سے خائف ہیں۔جس دن سے الیکشن کا اعلان ہوا ہے یہ اُسی دن سے الیکشن کے التوا کی ٹیکٹسزاپنائے ہوے ہیں ان میں سے کئی تو ایسے بھی ہیں جو اپنوں کا گلاکاٹنے سے پہلے کہہ دیتے تھے کہ ہمارا فلاں ساتھی ناراض ہے اُس کے لئے دعا کریں اور چند دنوں بعد اس ساٹھی کی دعا میں تمام ہی لوگ شرکت بھی کرلیتے تھے۔
یہ لوگ انتخابات سے بری طرح سے خائف ہیں۔موجودہ حالات میں اگر آزادانہ االیکشن کا انعقاد ہوجاتا ہے تو کلاشن کوف بردار اورڈبے بھرو پارٹیاں ماری جائیں گی۔بے گناہوں پر بم دھماکے کرنا نہایت ہی قابلِ مذمت اور بزدلانہ بات جس کی نہ تو کوئی مذہب اور نہ ہی کوئی مہذب معاشرہ اجازت دیتا ہے۔آج کراچی میں جو بم دھماکے طالبان کے نام پر کرائے جا رہے ہیں اگر ہمارے ادارے بہ نظرِ غائر دیکھیںتواصل چہرے کھل کر سامنے آجائیں گے۔جس میں شائد ہمارے بعض ادارے اور غیرملکی ایجنٹ برابر کے شریک پائے جا سکتے ہیں۔کیونکہ مسجد کے وضوع خانے میں طالبان چاہے وہ کتنے ہی برے ہیں مگر حملہ نہیں کر سکتے یہ صرف دنیا میں پاکستان کے امیج کی دھجیاں بکھیرنا ہے۔
برے طالبان بھی نہ ہی بے گناہ لوگوں پر حملوں کا سوچ سکتے ہیںیہ صرف وہ ظالمان ہیں جنہیں اس الیکشن کی وجہ سے اپنی اصل کھلنے کا اندیشہ ستائے ہوے ہے ….بڑی عجیب بات ہے کہ عزیز آباد جیسا کورڈنڈ علاقہ جس میں ایم کیو ایم کی مرضی کے بغیرچڑیا بھی پر نہیں مار سکتی اتنے زبر دست بیریر کی موجودگی میں کیسے کوئی غیر ایم کیو ایم، بم دھماکے کرسکتے ہیں؟؟؟بڑی عجیب بات یہ ہے کہ گیارہ بارہ بم دھماکوں میں بے گناہ عوام تو بڑی تعداد میں شہید ہوتے ہیں مگر ٹارگیٹیڈ جماعتوں کے چار پانچ سے زیادہ افرد ہلاک ہی نہیں ہوتے،میرا مطلب یہ بھی ہر گز نہیں ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہوا؟ کہیں نمازی شہید ہوتے ہیں۔
Election
تو کہیں بچے ،بزرگ اور خواتین ،لگتا ایسا ہے کہ ان مذموم دھماکوں میں شائد وہ ہی اسٹیک ہولڈر چہرے چھپائے طالبان بن کرکاروائیاں کر رہے ہیں ۔جو دن رات شور کر رہے ہیں کہ ہمیں الیکشن مہم نہیں چلانے دی جا رہی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم انتخابات میں بھی ہر صورت میں حصہ لیں گے۔حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ تین چار جماعتیں الیکشن سے فرار چاہتی ہیں….دراصل وہ اپنی بری کار کردگی کی وجہ سے عوام کے سامنے منہ دکھانے کے تو قابل ہیں نہیں۔عوام کو فیس کرنے سے کترا رہی ہیں ۔ہوسکتا ہے کہ ماضی کی امریکہ غلامی کا بھی کہیں نہ کہیں انہیں خمیازہ بھگنا پڑ رہا ہو۔اسلام سے برگشتہ ان قوتوں کو یاد ہونا چاہئے کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کا ویژن بالکل واضح تھاقائد اعظم تو ایک نہیں ایک سو پندرہ مرتبہ سے زیادہ بار واضح کر چکے تھے۔
پا کستان میں اسلام کے سوائے کوئی مغربی نظام قابلِ قبول ہر گز نہ ہوگا اور کسی ایک بیان میں بھی انوں نے سیکولر اسٹیٹ کی بات نہیں کی!!!اور اگر وہ سیکولرنظام کے حامی تھے تو انہوں کانگرس جو سیکولر جماعت تھی اُس کی رکنیت سے دستبردار ہوکر مسلم لیگ میں کیوں شامل ہوے تھے؟ اور اسلامیانِ ہند کیلئے کیوں الگ مسلمان ملک کا مطالبہ کیا تھا؟؟؟در حقیقت وہ مسلمانوں کی نشاة الثانیہ کے علامہ اقبال کی طرح ہی علمبردار تھے۔امریکہ کے حمائتی میرے قائد کو بد نام کرنے کی کوشش نہ کریں،اس سے وہ خود ہی بدنام ہوں گے!!!حقیقت یہ ہے کہ نام نہاد سیکولر جماعتیں اپنی بری کار کردگی کی وجہ سے عوام میں تو اپنا اثرو نفوذرکھتی نہیں ہیں۔عوام گذشتہ پانچ سالہ لوٹ مار کا جواب چاہتے ہیں جو ان میں سے کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔مگر اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کیلئے ہر لمحہ نت نئے بہانے تراشے جا رہے ہیں۔
Taliban
سی آئی اے اور را کو جب تک ملک میں لگام نہیں دی جائے گی اُس وقت تک ملک میں تخریبی عمل روکا نہیں جا سکے گا۔ طالبان ایسی بودی کاروائیاں نہیں کرتے ہیں اوروہ نمازیوں بوڑھوں بچوں کوبھی نہیں مارتے بلکہ اہنے ٹارگیٹ پر بھر پور کاروائی کرتے تونوٹ کئے گئے ہیںگذشتہ گیارہ بارہ حملوں نے ان کے ٹارگیٹیڈ حملوں قلعئی بھی کھول دی ہے یہ حملہ کرنے والے طالبا ہیں یا کہ ہمارے اپنے ٹارگیٹ کِلر بھتہ خورظالمان ہیں۔
جو بھی ظالمان ان مذموم کاروائیوں میں ملوث ہیں آج نہیں تو کل ان کا پردہ تو چاک ہو کے رہے گا۔پیپلز پارٹی،اے این پی،ق لیگ اور متحدہ قومی موومنٹ کو اپنے سیاسی میدان سجالینا چاہئیں اور بہانے بازیوں سے انتخابات کے التوا کا تصور اپنے اپنے ذہنوں سے نکال دینا چاہئے۔آج تمام ہی سیاسی پارٹیوں کے جلسوں اور جلوسوں پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں چاہے وہ جماعت اسلامی،ہے پی ٹی آئی ہے،یا مولانا فضل الرحمان ہیں یا ن لیگ ہے۔حیلے بہانوں سے اب بات بننے والی نہیں ہے۔تمام سیاسی قوتیں نعروں کی حد تک نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے پاکستان کی تخریب کے بجائے اس کی تعمیر کا ارادہ لے کر اٹھیں۔
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir4khurshid@gmail.com