بھارت میں لوک سبھا الیکشن کے بعد اب تک کے حالات و واقعات کے مطابق بی جے پی لیڈر نریندر مودی وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے والے ہیں۔ وہ ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کی مسلم دشمنی کی جنونیت پر مبنی ”مائینڈ سیٹ” کی تربیت کے حامل ہیں۔ یوں تو بی جے پی پہلے بھی بھارت میں اقتدار میں رہی لیکن بی جے پی کی اس وقت اور اب کی قیادت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اگر بھارت کے نئے وزیر اعظم کے طور پر نریندر مودی بی جے پی کی روایتی سوچ کے مطابق ہندو ازم کی بنیاد پر انتہا پسندانہ فیصلے کرتے ہیں تو ان کی طرف سے کسی ”ایڈونچر” کی توقع بھی رکھی جا سکتی ہے۔
نریندر مودی کی کامیابی بھارت کی اس عریاں حقیقت کا اعتراف ہے کہ بھارت میں ہندو ازم کی بنیاد پر پاکستان اور مسلم دشمنی کے جذبات نمایاں ہو رہے ہیں۔ مودی نے متنازعہ ریاست کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے خاتمے کی بات بھی کی ہے۔ ان رجحانات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی روایتی سوچ کے مطابق ایسے سخت فیصلے بھی کر سکتے ہیں جس کے ردعمل میں خرابیوں اور مسائل میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔کم از کم اب تک تو بھارت کے نومنتخب وزیر اعظم یہی تاثر دے رہے ہیں اور پاکستان و مسلم دشمنی پر مبنی اپنے اس روایتی موقف کو الیکشن میں اپنی فتح کے لئے کامیابی سے استعمال کر رہے ہیں۔
بھارت میں نریندر مودی کو ایک ماہر اقتصادیات کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی تسلیم کی جا رہی ہے کہ ان کی شخصیت اورکردار کا سب سے سیاہ پہلو 2001ء میں گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات ہیں۔گودھاراٹرین کے واقعہ میں 65 افراد کے جلائے جانے کے بعدریاست گجرات میں مکمل سرکاری حمایت سے مسلمانوں کاقتل عام کیا گیا۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق چند ہی دنوں میں دو ہزار مسلمان انتہا پسند جنونی ہندوؤں کے ہاتھوں مارے گے،ہزاروں زخمی اور ہزاروں بے گھر ہوئے جو آج تک شہروں سے باہر کوڑے کے ڈھیروں پر زندگی کے دن گزار رہے ہیں اور اب تک ان مسلمانوں کو واپس اپنے گھروں کو آنے کی اجازت نہیں ہے۔
مودی نے گجرات کے وزیر اعلی کے طور پر انتہا پسند ہندوؤں کو مسلم کش فسادات میں بھرپور سپورٹ فراہم کی جس کے قصے زبان ز د عام ہیں اور پوری دنیا اس سے واقف ہے۔ ہزاروں مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کی حلف برداری ‘تقریب میں’ پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سمیت تمام سارک ممالک کے سربراہانِ حکومت کو دعوت’ دی گئی ہے اور ممکنہ طور پر پاکستان،افغانستان، سری لنکا، نیپال اور دیگر کئی ممالک کے حکومتی سربراہان بھی 26 مئی کو منعقد ہونے والی ‘مودی کی دستاربندی’ تقریب میں شرکت کریں گے۔ادھر وزیراعلیٰ عمر عبداللہ اور پی ڈ پی صدر محبوبہ مفتی سمیت کئی مین اسٹریم لیڈران نے ‘مودی کی تقریب حلف برداری’ میں میاں نواز شریف کو شرکت کی دعوت دئیے جانے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس اُمید کااظہار کیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سال 2008 سے معطل جامع مذاکراتی عمل کو بحال کرکے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائیگا۔
عمر عبداللہ نے نواز شریف کو مدعو کئے جانے کے فیصلے کو بہترین اقدام قرار دیتے ہوئے اس یقین کااظہار کیا ہے کہ یہ اقدام دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین پائیدار مذاکرات کا پیش خیمہ ثابت ہو گا جبکہ محبوبہ مفتی نے نواز شریف کو دعوتِ خاص دئیے جانے کو سراہتے ہوئے اس اُمید کااظہار کیا کہ مودی اور نواز مل کر کثیرالمرکز اعتماد سازی اقدامات اٹھا کر مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ بھی ہموارکریں گے۔ لوک سبھا انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل کرنے کے بعد ایک غیر معمولی فیصلہ لیتے ہوئے نومنتخب وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کو اپنی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی خاتون ترجمان نرملا سیتھارام نے کہا ہے کہ 26 مئی کو تقریبِ حلف برداری منعقد ہو رہی ہے جس میں جنوب ایشیائی ممالک کی تنظیم ‘سارک’ کے رہنماؤں کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ مہمانوں کی فہرست میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کا نام بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ 16 مئی کو پارلیمانی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے پر پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے نریندر مودی کو فون کر کے مبارک باد اور اُنھیں پاکستان کے آنے کی دعوت دی تھی جبکہ نواز شریف نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا عندیہ دیا تھا۔
Narendar Modi
کچھ عرصہ قبل ان کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے بھارت کے دورے کے موقعہ پر کہا تھا کہ وہ نریندر مودی کے ساتھ کام کرنے پر تیار ہیں اور یہ کہ بھارت میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد ہی دونوں ممالک میں جامع مذاکرات شروع کرنے پر کوئی پیش رفت ہو سکے گی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں بہتری کیلئے کئے جانے والے جامع مذاکرات کا سلسلہ 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد سے رکا ہوا ہے۔تاہم سیاسی اورسفارتی ماہرین کا ماننا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کو تقریب میں شرکت کی دعوت دینا خاصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ نومنتخب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا پاکستان کے بارے میں موقف سخت رہا ہے اور وہ متعدد بار پاکستان پر تنقید کر چکے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس اور دیگر کشمیری جماعتوں کا ملا جلا ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ حریت کانفرنس (گ) نواز شریف کے دورہ بھارت کے حق میں نہیں ہے لیکن حریت کانفرنس (ع) نے اسے خوش آئند قرا ر دیا ہے۔ کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ جو کہ حکمران جماعت نیشنل کانفرنس کے صدر بھی ہیں، نے سماجی ویب سائٹ پر تحریر کردہ اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ مودی کی طرف سے سارک ممالک کے سربراہان حکومت بالخصوص پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کوحلف برداری تقریب میں شرکت کی دعوت دینا ایک بہترین فیصلہ ہے۔
اس اقدام کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان پائیدار اور نتیجہ خیز مذاکرات کی شروعات ہو گی۔ اس دوران اپوزیشن جماعت پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے بھی مودی کی طرف سے نواز شریف کو اپنی حلف برداری تقریب میں شرکت کی دعوت دینے کے فیصلے کو سراہا اور کہا کہ اس اقدام کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہونے کے ساتھ ساتھ تعطل کے شکار مذاکراتی عمل کو راہ راست پر لانے میں کافی مدد ملے گی۔محبوبہ مفتی نے مودی کے فیصلے کو مثبت شروعات سے تعبیر کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ سارک ممالک کے سبھی سربراہان مملکت کی مودی کی حلف برداری تقریب میں شرکت کے نتیجے میں جنوب ایشیائی خطے میں وسیع البنیاد امن و امان اور بہتر تعلقات قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ پی ڈی پی صدر نے کہا کہ یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ حکومتی کمان سنبھالنے کے موقعہ پر نریندر مودی نے سبھی ہمسایہ ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی طرح پاکستان میں بھی دائیں بازو کی مذہبی و سیاسی جماعتوں کی جانب سے نواز شریف کے مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی مخالفت کی جا رہی ہے۔
Nawaz Sharif
جماعةالدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید جن کی جماعت نے ان دنوں ملک گیر سطح پر ہفتہ تکبیر مہم شروع کر رکھی ہے اور پورے ملک میں تکبیر کنونشن، جلسوں اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے’ انہوںنے نریندر مودی کی دعوت کو پاکستان کو اپنے جال میں پھانسنے کی سازش قرار دیا ہے اور کہاہے کہ نواز شریف کو بھارت نہیں جانا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات بالکل درست ہے۔ ہزاروں مسلمانوں کا قاتل مودی جس نے پاکستانی وزیر اعظم کی مبارکباد کا جواب تک دینا گوارا نہیں کیا’ اس سے ملاقات کیلئے جانے کے فیصلہ کو غیور پاکستانی قوم کسی صورت پسند نہیں کرے گی۔