تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم اِس میں کو ئی دورا ئے نہیں ہے کہ بھارت اور اسرائیل گرویدہ امریکا افغانستان میں سولہ سالہ اپنی نا کا می کا ملبہ پاکستان کے سرمار کر اپنی سُبکی مٹانے کے لئے پاکستان کو دھمکیاں دے رہاہے اور من گھڑت الزامات لگا رہاہے نا ئن الیون کے ہولنا ک سانحے کے بعد اتحادیوں کے سہارے دہشت گردوں کو نشانِ عبرت بنا نے کے لئے افغانستان میں گھنسے والا امریکا اپنی دہشت گردی کے خلاف لڑی جا نے والی جنگ میں بُری طرح سے نا کام ہوگیاہے پچھلے اگست کے مہینے میں امریکا نے جیسی افغان پالیسی وضع کی تھی اِس میں افغانستان سے زیادہ پاکستان سے متعلق ہی پالیسی شامل کی گئی تھی جس میں افغانستا ن کے بجا ئے پاکستان کو ہی افغانستا ن کے استحکام او سالمیت کو یقینی بنانے کے لئے پا بند کیا گیاتھا جبکہ اِس افغان پالیسی پر پاکستان نے ذرا بھی سنجیدگی سے کان نہ دھرا کیوں کہ آج اِس امریکی پالیسی کے بدلے پاکستان کو اپنی بقاءاور سا لمیت کی فکر لا حق ہے تواِس کے برعکس اَب امریکی صدر نے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف لڑی جا نے والی امریکی جنگ میں پاکستان کی پیش کی گئیں جا نی اور مالی قربانیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے اُلٹا پاکستان کو ہی دھمکیاں دینے اور الزامات لگا نے کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع کردیاہے۔تاہم اِن امریکی دھمکیوں اور الزامات کو حکمرانِ پاکستان اور سیاستدان خاطر میں نہیںلا رہے ہیںاور اچھا ہے کہ اِنہیں لا نا بھی نہیں چا ہئے اَب بہت ہو گئی ہے امریکی الزامات کا جوابات دیتے اور امریکی دھمکیوں اور امریکی ڈکٹیشنز پر چند ڈالر کی امداد اور قرضوں کے عوض کام کرتے کرتے پاکستا نی تھک گئے ہیں جن کی پاداش میں ہمیشہ پاکستان کو سوا ئے دھمکیوں اور بدنامیوں کے امریکا اور اِس کے بھارت واسرائیل اور افغانستان جیسے بے مرو ت اور احسان فراموش حواریوں سے دولفظ تعریف کے بھی نہیں ملے ہیں تو اَب یہ بہت اچھا کررہے ہیں کہ پاکستانی حکمران اور سیاستدان امریکا کو پلٹ کر جواب دے رہے ہیں آخر امریکا کو بھی سمجھنا چا ہئے کہ آخر کو ئی کب تک اِس کی ہر نا جا ئز بات اور نا جا ئز مطا لبات کو برداشت کرے گا۔
پاکستان کی عسکری قیادت تو پہلے ہی واضح کرچکی ہے کہ اَب افغان جنگ پاکستان میں اور پاکستان سے نہیں لڑی جا ئے گی،ہم امریکی امداد کے عوض نہیں بلکہ اپنی بقا ءاور سا لمیت کے خاطر امریکی جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر لڑتے آئے ہیں مگر اَب ایسا نہیں ہوگا جیسا امریکا ہم سے چا ہئے گا، تب ہی تووفاقی وزیرخارجہ خواجہ آصف نے بھی امریکی بیانات اور الزامات پر اپنا کھل کرسخت ردِ عمل کا اظہارِ خیال کرتے ہوئے نہ صرف امریکا بلکہ اِس کے حواریوں بھارت ، اسرائیل اور افغانستان اور دنیا پربھی یہ باورکردیاہے کہ”امریکی انتظامیہ کا بیان اقوام متحدہ میں سفارتی اور افغانستان جنگ میں ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے،امریکا ہمیں الزام یا دھمکی نہ دے،دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہمارے تجربے سے سیکھے“یقینا یہ الفاظ امریکا کو سمجھ آجا نے چاہئیں کہ اَب پاکستان امریکا سے کیا چا ہتا ہے اور آج کے پاکستان کے اِس رویئے کے بعد امریکا کو پاکستان سے کیا اُمید رکھنی چاہئے آج امریکا کوبھی یہ خود سمجھنا ہوگا کہ نائن الیون کے واقعے کے بعد فرنٹ لائن کا ہمیشہ کردار اداکرنے والا پاکستان اِس کی جنگ میں آخر کب تک ہراول دستے کا کرداراداکرتا رہے گا؟جبکہ اِس کے اتحادیوںکا اتنا نقصان نہیں ہوا ہے جتناکہ پاکستان اپنا جا نی اور مالی نقصان اِن سبھوں سے زیادہ کرچکاہے امریکا کی جا نب سے اپنے اتحادیوں کو بچا تے ہوئے صرف پاکستان سے ہی نارواسلوک روارکھا جانا امریکی کمینہ پن اور ہٹ دھرمی کے سِوا اور کیا ہے؟
اَب اِس منظر اور پس منظر میں ایک لمحے کو ہر پاکستا نی کو یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ آج پاکستان کو امریکی خبطی صدرڈونلڈ ٹرمپ جیسی دھمکیاں دے رہاہے یقینا اِس کی وجہ ہمارے حال اور ماضی کے سول اور آمر حکمران اور اِن کی فرسودہ پاک امریکا پالیسیاں ، بے جاامریکی حمایت اور اِن کے اِدھر اُدھر کے وہ خوشا مدی چیلے چپاٹے ہیں جنہوں نے ہمیشہ امریکا کو اپنا دیوتا اور حاجت رواجانا ہے آج یہی وجہ ہے کہ سُپر پاور امریکا کا ایک خبطی صدربھی پاکستان کو اپنی مرضی پر چلنے کے لئے دھمکیاں دے رہا ہے اگرچہ یہ کسی حد تک درست ثابت ہوسکتا ہے کہ امریکی دھمکیوں کے جوا ب میں ہما رے حکمران اور سیاستدان کسی دبا و ¿ میںنہیں آرہے ہیں مگر ابھی کڑوڑوں پاکستا نیوں کے دماغ میں یہ نکتہ ہتھوڑے برسا رہا ہے کہ کیا ہمارے لوگوں کا یہ عمل زیادہ عرصے تک چل سکے گا ؟ یہ سوال ابھی برقرار ہے کیو نکہ امریکی اشارے پر نہ چلنے سے ممکن ہے کہ آئندہ کچھ نہیں تو کم از کم امریکا اپنی اِس دھمکی کو ضرور عملی جا مہ پہنا دے کہ ” پاکستان کو 700ملین ڈالر کی امداد بند کردے“ تب ہمارے حکمران اور سیاستدان بلبلانہ اُٹھیں اور کہیں پھر اِس کے بعد یہ دوبارہ بیک ڈورپالیسی سے امریکا سے رابطہ نہ قا ئم کرلیں اور آہستہ آہستہ خاموشی سے وہی کچھ کرنے لگیں آج جس کی یہ دنیا دِکھاوے کے لئے کھل کر مخالفت کررہے ہیں، بہر کیف ، آج یہ بہت اچھا ہواہے کہ ہمارے حکمر انواور سیاستدانوں کو ستر سال بعد اپنی خودمختار ی اور استحکام اور سالمیت کا بھرم قا ئم رکھنے کا خیال آگیاہے اور اِنہوںنے اپنے دیوتا اور حاجت رواامریکا کو آنکھیں دِکھا نی شروع کردی ہیںایسا تو ہمیں بہت پہلے ہی کرلینا چا ہئے تھا مگر دیر آید درست آید ،اِس طرح نئی نسل کو یہ پیغام ضرو ر جا ئے گا کہ آج پاکستا نی حکمرانواو رسیاستدانوں نے امریکی تلوے چا ٹنے اور اِس کی ڈکٹیشن پر چلنے کا سلسلہ ختم کرنے کا ارادہ کرلیاہے اور اِس کی افغان جنگ میں فرنٹ لا ئن کا کردار اداکرنا بھی چھوڑ دیاہے اوراَب ہمارے حکمران ، سیاستدان اور عسکری قیادت خالصتاََ اپنی خودمختاری اور سالمیت کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
بہر کیف ،اِن دِنوں امریکی پاکستان کو ملنے والی دھمکیوںاور لگا ئے جا نے والے من گھڑت الزامات سے پاک امریکا تعلقات نازک ترین دور سے گزررہے ہیںتواُدھر ہی ہمیں سنجیدگی سے یہ ضرور سوچناہوگا کہ آج امریکی رویوں میں جو سختی پیداہوئی ہے اِس کے درپردہ بھارت ہے جس نے پاکستا ن میں اپنے جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد امریکا کو اپنے مقاصد کے خاطر استعمال کرنے کی سردھڑ کی بازی لگا رکھی ہے آج مریکا کا پاکستان سے دھمکی آمیز اور الزامات لگا نے والایہ وریہ جہاں بہت سے خدشات اور مخمصوں کو جنم دے رہاہے تو وہیں خطے میں پاکستان کو دبا و ¿ میں لے کر بھارت اور امریکی مفادات کو بھی مسترد نہیںکیاجاسکتاہے تاہم اِن دِنوں ایک طرف پاک امریکا تعلقات میں بگاڑ پیداکرنے کے لئے امریکی دھمکیاں اور الزامات ہیں تو اُدھر ہی آئندہ سال پاکستان میں ہونے والے انتخابات بھی ہیں۔
مُلک کی موجودہ سیاسی صورت حال میں قومی امکان یہ ہے کہ با لخصوص پی ایم ایل (ن) کی عدلیہ اور اداروں کے خلاف جا ری محا ذ آرا ئی اور پی پی پی کی موجودہ خا لی ڈھول جیسی سیاسی اور صفرعملی کارکردگی کی بنا پراگلاالیکشن دونوں جماعتوں کے لئے ایک بڑااَپ سیٹ ثابت ہوگا اِس لئے کہ تاریخ گواہ ہے کہ اِن دونوں جماعتوں کو اقتدار امریکی خوشامد اور چاپلوسی سے ہی ملاکرتا ہے اور آج یہ دونوں ہی کہیں نہ کہیںسے امریکی خوشامد اور چا پلوسی سے چھٹکارہ حاصل کرناتونہیں چا ہتی ہیںمگر امریکا اِن سے ضرور نجات حاصل کرناچاہتاہے جبکہ اِن کی جگہہ اپنے مفادات کے لئے امریکا اگلے انتخابات سے پاکستان میں اپنا کو ئی نیا پٹھو تلاش کرنے کا خواہشمندہے دیکھتے ہیںکہ یہ اِس میں کتنا کامیاب ہوتا ہے اور بدبختی کا سلسلہ کہاں جا کر تھمتا ہے؟ ہمیںاگلے الیکشن میں اپنا فیصلہ خود کرناہوگااور امریکا سے نجات پانے کے لئے اُٹھ کھڑا ہونا ہو گا ورنہ..؟ (ختم شُد)
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com