تحریر : چودھری عبدالقیوم لودھراں کے ضمنی الیکشن کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے تیسری شادی کرلی ہے جس کے لیے اسے مبارک۔دوسری طرف میاں نوازشریف نے عدلیہ کیخلاف اپنی مہم میں مزید تیزی پیدا کرلی ہے۔لودھراں الیکشن میں مسلم لیگ ن کے پیر سید اقبال شاہ کی جیت اور تحریک انصاف کے علی ترین کی شکست دونوں جماعتوں کے لیے غیرمتوقع نتیجہ تھا یہاں مسلم لیگ ن کو جیت مشکل اور تحریک انصاف کو بہت آسان نظر آرہی تھی۔لیکن عوام کے فیصلے نے سیاسی تجزیہ نگاروں کیساتھ دونوں جماعتوں کو بھی حیران کردیا۔جس سے مسلم لیگ ن کو حوصلہ ملا ہے تو تحریک انصاف کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ وہ کیوں ہارے ہیں۔جس کی ایک وجہ تو عمران خان نے خود ہی بیان کردی تھی کی ان کی اس شکست کی بڑی وجہ حد سے زیادہ خوداعتمادی تھی جس کیوجہ سے تحریک انصاف والوں نے ا س الیکشن کو بہت ایزی لیا تھا ایک وجہ یہ بھی ہے ہمارے ہاں اکثر اوقات ضمنی الیکشن کے نتائج برسراقتدار پارٹی کے حق میں ہی ہوتے ہیں اور دوسری وجہ یہ بھی ہے عام لوگ کا کہنا ہے کہ ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کا ٹکٹ جہانگیر ترین خان کے بیٹے علی ترین خاں کو دینے کی بجائے کسی عام کارکن کودینا چاہیے تھا تاکہ عمران خان کا یہ دعویٰ درست ثابت ہوسکتا کہ تحریک انصاف موروثی سیاست کیخلاف ہے۔
اگر ایسا ہوتا توشائد نتیجہ مختلف ہوسکتا تھا اگر پھر بھی شکست ہوتی تو یہ تحریک انصاف کے لیے اسقدر خفت کا باعث نہ ہوتا۔اب جو ہونا تھا وہ ہوچکا امید ہے اس نتیجے کے بعد تحریک انصاف اپنی پالیسیوں پر غورکرے گی۔کیونکہ عمران بنیادی طور پر کھیل کے میدان کا کھلاڑی ہے جس نے کرکٹ میں ورلڈ کپ جیتنے سمیت کئی کامیابیاں سمیٹنے کے بعد سیاست کے میدان میں قدم رکھا تھا یہاں بھی اس نے کامیابیاں ضرور حاصل کیں سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ان کی جماعت کا گراف بھی تیزی سے بڑھ رہا تھا لیکن لاہور،چکوال اور ضمنی الیکشن میں ووٹرز کے فیصلوں نے تحریک انصاف کو مایوس کیا خاص طور پر لودھراں میں ضمنی الیکشن کے رزلٹ نے تحریک انصاف کو مزید محنت اور اپنی کوتاہیوں پر توجہ دینے کی دعوت دی ہے۔سیاست کے میدان میں عمران خان کا اصل امتحان آئندہ الیکشن میں ہونا ہے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کو اس الیکشن کے نتائج عمران خان کے سیاسی مستقبل کا بھی فیصلہ ہونا ہے۔
بحرحال الیکشن تمام سیاسی جماعتوں کا امتحان ہوتے ہیں۔اسی طرح یہ الیکشن پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہیں کہ اسی الیکشن میں ہی سپریم کورٹ سے وزارت عظمیٰ سے نااہل ہونے والے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اور ان کی فیملی کے سیاسی مستقبل کا بھی فیصلہ ہوگا کہ ملک کی آئندہ سیاست میں ان کا کردار ہوگا یا سیاست سے مکمل آوئٹ ہوجائیں گے۔اس بات کا اندازہ میاں نوازشریف اور ان کے خاندان کو بھی ہے اسی لیے وہ نااہلی کے بعد بڑی بے جگری کیساتھ مارو یا مرجائو کے جذبے کیساتھ سرگرم عمل ہیںاپنی انھیں سرگرمیوں کیوجہ سے وہ اپنی بیمار بیگم کی عیادت کے لیے لندن بھی نہیں جارہے۔اپنی سیاست کو بچانے کے لیے نوازشریف نے عدلیہ کیخلاف اپنی زندگی کی خطرناک مہم شروع کررکھی ہے۔جس میں لودھراں کا ضمنی الیکشن جیتنے کے بعد مزید شدت پیدا ہوئی ہے۔اس کے لیے مسلم لیگ ن کے ملک بھر میں جلسوں کے پروگرام شروع کررکھے ہیں جن میں میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اعلیٰ عدلیہ اور ججز پر کھلے عام تنقید کے تیر برساتے ہیں۔
جسے مسلم لیگ ن کے سوا کوئی بھی اچھا خیال نہیں کرتا کیونکہ اس طرح عدلیہ اور ججز پر الزام تراشی کا رحجان سیاست،جمہوریت اور ملک کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔لیکن نواز شریف ان باتوں سے بے نیاز ہو کر عدلیہ کیخلاف مہم چلارہے ہیں جس سے عدلیہ کی توہین ہوتی ہے ایسی سرگرمیوں سے میاں نوازشریف اور مریم نواز کیخلاف توہین عدالت کے مقدمات بن سکتے ہیں جس میں انھیں گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے جس کا علم میاں نواز شریف کو بھی ہے لیکن اس کے باوجود وہ بڑی شدت کیساتھ عدلیہ کیخلاف محاذآرائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نوازشریف جان بوجھ کر ایسا کررہے ہیں کہ وہ اپنے خلاف عدالتوں میں زیرسماعت کرپشن کے کیسز میں فیصلے آنے سے پہلے ہی توہین عدالت کے مقدمے میں گرفتار ہوجائیں ۔لیکن کوشش بسیار کے باوجود میاں نواز شریف کو اپنے مقصد میں کامیابی ملتی نظر نہیں آرہی۔کیونکہ عدلیہ اورمعزز ججز صاحبان بھی اس چیز کو سمجھتے ہیں اس لیے وہ نوازشریف کی عدلیہ مخالف مہم کو برداشت اور نظرانداز کرتے ہوئے اپنے کام اور فرائض منصبی ادا کرنے میں مگن ہیں۔دعا کرنی چاہیے کہ سیاست کا کھیل اور جمہوریت کی گاڑی چلتی رہی اس کی راہ میں کوئی روکاوٹ نہ آئے یہ ہی ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔ تمام سیاستدانون کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی سیاست کا محور قوم اور ملک کے مفاد کو بنائیں۔