اللہ پاک کا شکر ہے کہ25 جولائی کے انتخابات بخیر و خوبی انجام پائے عوام نے آزادانہ طریقے سے اپنی رائے کا اظہار کیا عمومی طور پر ملک بھر میںالیکشن پرامن ماحول میں ہوئے ماضی کے برعکس الیکشن کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیاخاص طور پر کراچی میں عوام نے پہلی بار بڑے اچھے ماحول میں اور آزادانہ طریقے سے ووٹ کاسٹ کیے اس پر کراچی کے لوگوں نے خوشگوار حیرت کا اظہار کیا آزادانہ اور پرامن الیکشن کرانے میں پاک فوج اور سیکیورٹی اداروں کا کردار قابل تعریف ہے جس کے لیے وہ عوام کیطرف سے شکریے اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔الیکشن کے دن کوئٹہ میں ایک پولنگ سٹیشن کے قریب دہشتگردی کا ایک افسوسناک واقعہ رونما ہوا جس میں کئی قیمتی جانوں نے جام شہادت نوش کیا ۔الیکشن کے ابتدائی نتائج کیمطابق پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی اور خیبرپختونخواہ اسمبلی میں واضح اکثریت ملنے کیساتھ سندھ اور پنجاب اسمبلی میں بھی اکثریت حاصل ہوئی ہے جہاں اسے دوری بڑی جماعت کی حیثیت ملی ہے خیال کیا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی مرکز اور کے پی کے میں اپنی حکومتیں بنائے گی البتہ یہ سب کچھ نو منتخب اراکین اسمبلی کے حلف اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے انتخابات کی کاروائی کے بعد ہو گا۔
حکومتوں کی تشکیل میںا بھی بہت جوڑتوڑ ہونگے۔اس کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے علاوہ آزاد امیدوار بھی اہم کردار ادا کریں گے۔ایک بات واضح ہے کہ پی ٹی آئی کو مرکز اور مسلم لیگ ن کوپنجاب میں حکومت سازی کے لیے کسی نہ کسی دوسری جماعت سے اتحاد کرنا پڑے گا۔اس مرحلے میں پیپلز پارٹی کے آصف زرداری کا کردار بڑا اہم ہوگا وہ جوڑتوڑ کی سیاست کے ماہر سمجھے جاتے ہیں جس کا مظاہرہ انھوں نے کچھ عرصہ پہلے چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں بھی کیا تھا جہاں انھوں نے اپنے فن اور تجربے کے ذریعے مسلم لیگ ن کو اکثریت ہونے کے باوجود شکست دے دی تھی ۔عام انتخابات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ایک بہت بڑی خامی سامنے آئی ہے کہ اسے عوام کو الیکشن کے رزلٹ بروقت دینے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ الیکشن حکام کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انھوں نے الیکشن کے نتائج مرتب کرنے اور عوام تک پہنچانے کے لیے جدید نظام اپنایا ہے لیکن عملی طور پر ایسا نہیںہوسکا لوگوں کو الیکشن کے نتائج حاصل کرنے لیے الیکٹرانک میڈیا پر انحصار کرنا پڑایہاں میں بتاتا چلوں کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے [clik ecp] کے نام سے ایک اپلیکیشن بھی بنائی گئی تھی جس کا ذیعے الیکشن کی معلومات حاصل کی جا سکتی تھیں لیکن الیکشن کے اگلے روز تک اس پر ایک رزلٹ بھی اپلوڈ نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ سے لوگوں کو رزلٹ اور دیگر معلومات حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ ماضی کے برعکس الیکشن کمیشن کو کئی گنا زیادہ فنڈز دئیے گئے تھے۔
الیکشن کمیشن کی ان خرابیوں اور کوتاہیوں کی بھی تحقیقات ہونی چاہیں۔الیکشن میں عوام نے پی ٹی آئی کے تبدیلی کے نعرے کو ووٹ دے کر اپنا فیصلہ اور فرض ادا کردیاہے جس کے بعد اب عمران خان کا امتحان شروع ہوگا کہ وہ اپنے تبدیلی کے ویژن پر کس طرح عمل کرتے ہیں اس کے لیے فوری طور پر کیا عملی اقدامات اٹھاتے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان گذشتہ بائیس سال سے ملک میں تبدیلی کا نعرہ لگا کر جدوجہد کررہے ہیںوہ ملک سے کرپشن ختم کرکے ایک نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں جہا ں غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ ہو امیر اور غریب کو تعلیم، انصاف اور علاج معالجے کے یکساں مواقع حاصل ہوں۔عمران خان کا ماضی بتاتا ہے کہ انھوں نے زندگی میں جو بھی ارادہ کیا اسے پورا کرکے دم لیا اس کی مثال 1992ء کا کرکٹ ورلڈ کپ ہے جس میں انھوں نے دنیا کی ایک کمزور کرکٹ ٹیم کی کپتانی کرتے ہوئے اپنی مہارت اور جنون سے پاکستان کوورلڈ چمپیئن کا اعزا دلایا۔بعدازاں اپنی والدہ کی کینسر کی بیماری کے نتیجے میں وفات پانے سے کینسر کے علاج کے لیے ایک جدید ہسپتال بنانے کا ارادہ کیا ۔ اس کے لیے کروڑوں روپے کی لاگت سے شوکت خانم میموریل ہسپتال بنانے کیساتھ اور جدید تعلیم کے لیے نمل یونیورسٹی بنائی۔جہاں امیر اور غریب کو طریقہ کار کیمطابق علاج اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے یکساں مواقع میسر ہوتے ہیں۔
یہ ان کی عوام کیساتھ محبت اور خدمت کی بہترین مثالیں ہیںعوام نے عمران خان کے ان منصوبوں کے لیے ہمیشہ دل کھول کر عطیات دئیے یہ بھی حقیقت ہے کہ نمل یونیورسٹی میں نظام تعلیم اور شوکت خانم میموریل میں علاج کے طریقہ کار پر لوگوں کو بھرپور اعتماد ہے اور ان منصوبوں میں آج تک ایک پیسے کی بھی کرپشن سامنے نہیں آئی۔عمران خان نے عملی طور پر اپنے آپ کو صادق اور امین ثابت کیا ۔اللہ نے انھیں بڑی عزت اور نعمتوںسے نوازا ہوا ہے وہ پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر اچھی شہرت رکھتے ہیں۔عمران خان نے بیس بائیس سال پہلے پاکستان میں تبدیلی کا نعرہ بلند کیا اور اس کے لیے انتھک طریقے سے طویل جدوجہد کی چند سال پہلے انھوں نے پانامہ کرپشن کیس کے خلاف آواز اٹھائی یہ معاملہ عدالتوں تک پہنچایا اور اس کی مسلسل پیروی کی عوام میں کرپشن کیخلاف شعور کوبیدار کیا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک وزیراعظم کو نہ صرف وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے بلکہ جیل بھی جانا پڑا کسی حکمران اور طاقتور کیخلاف اس طرح کی کوئی بڑی کا روائی ہمارے ملک میں پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ان کی جدوجہد کے نتیجے میں اداروں خاص طور پر نیب نے کرپشن کیخلاف آزادنہ طور پر کام کرنا شروع کیا اور عمران خان کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی کرپشن کے خلاف کاروائیوں کا آغاز ہوچکا ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ لوگ اب حکمرانوں سے ان کی کارکردگی کے متعلق پوچھتے ہیں۔یہ ایک اچھی چیز ہے عوام کو اپنے حقوق اور فرائض کا شعور آرہا ہے اور وہ تبدیلی کے خواہش کرتے ہیں اسی خواہش کے لیے عوام نے عمران خان پر اعتماد کرتے ہوئے تبدیلی اور ایک نئے پاکستان کے لیے پی ٹی آئی کو الیکشن میں کامیابی سے ہمکنار کیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان عوام کی خواہشات اور توقعات پر پر پورا اترتے ہیں کہ نہیں اس کے لیے پی ٹی آئی کے پاس پانچ سال ہیں لیکن عمران خان کو اپنے دعوئوں اور وعدوں پر عملدرآمد کے لیے پہلے سو دنوں میں اپنے عملی اقدامات کا آغاز کرنا پڑے گا تاکہ یہ ظاہر ہوسکے کہ وہ تبدیلی کے نعرے اور پاکستان سے کرپشن ختم کرنے کے لیے اپنے دعوئوں پر قائم ہیں اور اس کے لیے کام کریں گے۔