تحریر : پروفیسر رفعت مظہر گورکھ پُور سے پانچ بار انتخابات جیتنے والے تشدد کے حامی، مسلمانوں کے بدترین مخالف اور ”ہندو توا” کی علامت آدتیہ ناتھ یوگی کو بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے آر۔ایس۔ایس کے حکم پر اتر پردیش کا وزیرِ اعلیٰ بنا دیا ہے۔یہ وہی یوگی ہے جو کہتا ہے کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ملک ہے، اس میں کسی اور مذہب کی گنجائش نہیں۔ اِس لیے جو ہندوستان میں رہنا چاہتا ہے اُسے ہندو دھرم اپنانا ہو گا۔
آدتیہ ناتھ یوگی کی اپنی پرائیویٹ فوج ہے۔ اُس نے اپنی بے پناہ طاقت کے زور پر گورکھ پُور کے اُن تمام محلوں،بازاروں اور گلیوںکے نام تک بدل ڈالے جو مسلمانوں کے نام پر تھے۔اب علی نگر آریہ نگر،اردو بازار، ہندی بازار اور میاں بازار ،مایا بازار بن چکے ہیں۔اُس نے ”لوجہاد” کا نعرہ بلند کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان لڑکے ہندو لڑکیوں کو اپنی محبت کے جال میں پھانس کر اُنہیں اُن سے شادی کرتے ہیں اور پھر مسلمان بنا لیتے ہیں۔اُس نے اعلان کیا کہ اگر ایک ہندو لڑکی مسلمان ہوئی تو ہم 100 مسلمان لڑکیوں کو ہندو بنائیں گے۔اگر ایک ہندو قتل ہوا تو ہم اُس کا مقدمہ درج کروانے کی بجائے ١٠ مسلمان قتل کریں گے۔
یو پی کے انتخابات میں بی جے پی نے کسی ایک مسلمان کو بھی ٹکٹ نہیں دیا اور محض مسلمان مخالف پراپیگنڈے کے زور پر بی جے پی ، یو پی میں کلین سویپ کر گئی اور مسلمانوں کو صرف دَس سیٹیں مِل سکیں۔ یہ تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کی نگاہ ِ انتخاب متعصب اور تشدد کے حامی آدتیہ ناتھ یوگی پر پڑے گی لیکن ایسا ہو چکا اوراب آدتیہ اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کرتے ہوئے 2019ء کے عام انتخابات سے پہلے اُترپردیش کو مسلمانوں سے پاک کر دینا چاہتا ہے حالانکہ اُترپردیش کی بائیس کروڑ کی آبادی میں چار کروڑ مسلمان بستے ہیں۔
جونہی آدتیہ ناتھ یوگی کو اُترپردیش کا وزیرِاعلیٰ بنانے کا اعلان ہوا ، مذہبی جنونی ہندوؤں نے پورے اُتر پردیش میں پمفلٹ تقسیم کر دیئے کہ مسلمان یو پی چھوڑ جائیں ورنہ ہم اُنہیں زبردستی نکال باہر کریں گے ۔آدتیہ ناتھ نے حکومت سنبھالتے ہی اعلان کیا کہ ”بُچڑخانوں” کو گندگی پھیلانے کی ہرگزاجازت نہیں دی جائے گی اِس لیے بُچڑخانے بند کیے جا رہے ہیں۔ اب اتر پردیش میں گوشت کی دوکانیں زبردستی بند کروائی جا رہی ہیں۔یہ اعلان اترپردیش کے مسلمانوں کے روزگار پر کاری ضرب ہے کیونکہ زیادہ تر مسلمان گوشت اور چمڑے کے کاروبار سے منسلک ہیں۔اِسی لیے مسلمان یو پی سے ہجرت کر جانے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں ۔ وہ خوف کی اِس فضا میں رہنے سے اپنا گھر چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جا بسنے کو ترجیح دیں گے ۔ اِس طرح اپنی مکروہ ذہنیت کے زور پربی جے پی مسلمانوں کی اکثریت کو یو پی سے نکال باہر کرنے کی تَگ و دَو کر رہی ہے ۔ اگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر اُسے 2019ء کے عام انتخابات میں کامیابی سے کوئی روک نہیں پائے گا۔
نریندر مودی کے اِس متعصبانہ فیصلے کو اقوامِ عالم میں بھی نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے نیویارک ٹائمز نے مودی کے اس فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ مودی حکومت ہندوستان کو ہندو راشٹریہ میں تبدیل کرنے کی تیاری کر رہی ہے اور 2019ء کے انتخابات کی تیاری اسی نہج پر کی جا رہی ہے کہ سیکولر جمہوریہ کو ہندو ریاست میں تبدیل کر دیا جائے۔ اِس طرح سے سیکولر جمہوریہ کا تصور دھندلا پڑ جائے گا۔بھارت کے ممتاز مورخ اے جے نورانی نے نریندر مودی پر فرقہ وارانہ سیاست میں ملوث ہونے کا الزام دھرتے ہوئے کہا کہ عوام کو اس فیصلے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ بھارت کے غیرجانبدار تجزیہ نگاروں کی کثیر تعدادبھی نریندر مودی کے اِس فیصلے کی شدید مذمت کر رہی ہے لیکن مودی حکومت کھُلم کھُلا ”ہندو توا” کارڈ کھیل کر 2019ء کے انتخابات جیتنا چاہتی ہے کیونکہ ”اکھنڈ بھارت” کا احمقانہ خواب دیکھنے والے نریندر مودی یہ سمجھتے ہیں کہ جتنی دیر تک پورے بھارت اور ریاستی انتخابات میں اُنہیں واضح اکثریت حاصل نہ ہو ، وہ اپنے ایجنڈے پر کھُلم کھلا عمل نہیں کر سکتے۔
اس صورت ِ حال پر پاکستان کوبین الاقوامی سطح پر بھارت کا مکروہ چہرہ دکھاتے ہوئے اُس کے سیکولراِزم کے ڈھونگ کا پردہ فاش کر دینا چاہیے تھا لیکن یہاں تو یہ عالم ہے کہ حکمرانوں سمیت تمام سیاسی جماعتیں 2018ء کے انتخابات کے لیے نہ صرف کمر کس رہی ہیں بلکہ باہم جوتم پیزار بھی ہیں۔وزیرِ اعظم نواز شریف سندھ فتح کرنے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ اوراب جبکہ عام انتخابات میں صرف ایک سال کا عرصہ باقی ہے تو اُنہیں ترقیاتی منصوبے بھی یاد آ گئے اور اُن ترقیاتی منصوبوں پر اربوں روپے کے اعلانات بھی۔جبکہ آصف زرداری نے پنجاب میں ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ اب مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے مابین الزامات کی جنگ شروع ہو چکی جسے کپتان محض ٹوپی ڈرامہ کہتے ہیں ۔ پنجاب پہ نظریں گاڑے آصف زرداری کو شاید یہ احساس ہو گیا ہے کہ سیاست بلاول جیسے بچوں کا کھیل نہیںاِس لیے اب وہ اپنی سیاسی شطرنج پنجاب میں جما کے چالیں چلنا شروع ہو گئے ہیں لیکن بلوچ سردار شاید یہ بھول گئے کہ عوام کا حافظہ اتنا بھی کمزور نہیں ۔ اُنہیں زرداری صاحب کے دَور کی غضب کرپشن کی عجب کہانیاں اَز بَر ہیں اور مسلسل ٹھوکریں کھانے کے بعد وہ شعوری طور پر اتنے پختہ ہو چکے ہیں کہ اب سوچ سمجھ کر ہی حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کم از کم پنجاب میں تو اُن کی دال نہیں گلنے والی ۔تحریکِ انصاف کے عمران خاں پاناما پیپرز پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی صورت میںکسی معجزے کے انتظار میں ہیں۔ اگر فیصلہ اُن کے حق میں آ گیا (جس کا بظاہر تو کوئی امکان نظر نہیں آتا) تو وہ پورے جوش و جذبے کے ساتھ انتخابی مہم کے لیے نکلیں گے اور اگر نہ آیا تو پھرنئے الزامات کے ساتھ اپنی انتخابی مہم شروع کریں گے۔ عوام کو اپنے کارنامے بتانے اور سنانے کے لیے اُن کی پٹاری خالی ہے اِس لیے وہالزامات کے سہارے ہی آگے نکلنے کی کوشش کریں گے ۔ سبھی جانتے ہیں کہ گزشتہ چار سالوں میں خیبرپختونخوا میں وہ کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دے سکے حالانکہ خیبرپختونخوا میں اُن کے پاس اپنی صلاحیتوں کو منوانے کا سنہری موقع تھا جو وہ اب گنوا چکے۔