اسلام آباد (جیوڈیسک) پانچ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے اتحاد نے، جن میں ایک کالعدم تنظیم بھی شامل تھی، ملک کے انتخابی نظام میں موجود خامیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ناصرف خود کو الیکشن کمیشن سے باضابطہ تسلیم کرایا بلکہ بغیر کسی قانونی چیلنج کے الیکشن بھی لڑا۔ دسمبر، 2012 میں جے یو آئی (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کی قیادت میں بننے والے متحدہ دینی محاذ میں اہلسنت والجماعت بھی شامل تھی۔
اس تنظیم کو حکومت نے فروری، 2012 میں کالعدم قرار دے دیا تھا، تاہم ڈان کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق، یہ بات الیکشن کمیشن سے چھپائی گئی تا کہ اس تنظیم کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی پانچ جماعتی اتحاد کی چھتری تلے الیکشن میں حصہ لے سکیں۔ انتخابی نشان کیلئے درخواست دیتے ہوئے اہلسنت والجماعت کی جگہ، اسی تنظیم کے سابق نائب صدر مولانا محمد ابراہیم کی قیادت میں پاکستان راہِ حق پارٹی کو اتحاد کا حصہ ظاہر کیا گیا۔
باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پاکستان راہ حق پارٹی دراصل اہلسنت والجماعت کا ہی سیاسی ونگ ہے۔ اہلسنت والجماعت پنجاب کے سیکریٹری اطلاعات غلام مصطفٰی بلوچ نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی پارٹی متحدہ دینی محاذ کا حصہ ہے۔ تاہم انہوں نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا کہ 2013 سے پہلے انتخابی نشان حاصل کرنے کی درخواست دیتے ہوئے اس بات کو الیکشن کمیشن سے کیوں چھپایا گیا۔ اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت میٹنگ میں مصروف ہیں اور فارغ ہونے کے بعد کال کا جواب دیں گے، لیکن انہوں نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ ماضی میں سپاہ صحابہ کہلانے والی اہلسنت والجماعت کے سربراہ مولانا محمد لدھیانوی نے این اے 89 جھنگ سے الیکشن میں حصہ لیا لیکن وہ پاکستان مسلم لیگ-نواز کے شیخ اکرم سے 3000 وٹوں سے شکست کھا گئے۔
بعد میں انہوں نے کامیاب امیدوار کی اہلیت کو چیلنج کرتے ہوئے ان پر قرض نادہندہ ہونے کا الزام عائد کیا۔ان کی پٹیشن پر فیصل آباد میں ایک الیکشن ٹربیونل نے شیخ اکرم کو نااہل قرار دیتے ہوئے لدھیانوی کو فاتح امیدوار قرار دے دیا۔ اس فیصلے پر کئی قانونی ماہرین حیران ہوئے کیونکہ ان کی رائے میں ٹربیونل نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔
ایک قانونی ماہر نے بتایا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ، 1976، کے سیکشن 67 (سی) کے تحت ٹربیونل کسی بھی کامیاب امیدوار کے الیکشن کو ختم کر سکتا ہے۔ ‘تاہم، یہ کوئی صوابدیدی اختیار نہیں اور صرف اسی صورت میں نافذ العمل ہو سکتا ہے جب ووٹوں کی گنتی کے عمل میں کوئی غلطی نظر آئے یا نتائج میں ہیر پھیر کے ثبوت ملیں’۔ ‘ان حالات میں، عموماً اس حلقے کا الیکشن منسوخ کرتے ہوئے دوبارہ الیکشن کا حکم جاری ہوتا ہے’۔
الیکشن کمیشن کے ایک نمائندے نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ای سی پی کو ٹربیونل کے فیصلے کی کاپی مل چکی ہے اور اس پر مناسب احکامات کے لیے اسے کمیشن کے سامنے رکھا جائے گا۔ ایک اور ای سی پی افسر نے بتایا کہ قانون کے تحت، کمیشن اپنے تقرر کردہ ٹربیونل کے فیصلے کو نظر انداز کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ ایسے فیصلے صرف سپریم کورٹ میں ہی چیلنج ہو سکتے ہیں۔