عام انتخابات 2018ء میں دو ہفتے باقی ہیں۔یہ پاکستان کے تیرہویں عام انتخابات ہیں۔ ملک کے پہلے الیکشن 1954ء میں منعقد ہوئے تھے۔25 جولائی کو ہونے والے یہ الیکشن پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین انتخابات ہیں۔جس میں عوام ایک نئے جوش وجذبے اور نئی امید وںکیساتھ حصہ لے رہے ہیں۔اب لوگوں میں ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ شعور ہے۔جب یہ الیکشن ہونے جارہے ہیں اس دوران میںگزشتہ تیس سالوں تک اقتدار کے مزے لوٹنے والی پارٹی مسلم لیگ ن بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہے،جماعت کے سربراہ میاں نوازشریف 25 جولائی 2017ء کو پانامہ کرپشن کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے نااہل ہوگئے تھے اس کے بعد 6 جولائی2018ء کو ایون فیلڈریفرنس میں احتساب عدالت نے میاں نوازشریف،ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر عباسی کو سزا سنائی جس کے بعدنوازشریف نااہل ہونے کیساتھ مجرم بھی بن گئے گزشتہ روز کیپٹن صفدر کو نیب نے ایک ریلی سے گرفتار کرکے جیل بھجوا دیا ہے جبکہ میاں نواز شریف اور اور ان کی صاحبزادی مریم لندن میں ہونے کیوجہ سے گرفتار نہیں ہوئیں۔
یہ فیصلہ ملک کی تاریخ میں ایک نئی روایت ہے کہ کسی طاقتور کو اس کے اپنے دور حکومت میں کرپشن کرنے پر اتنی بڑی سزا ہوئی ہے اگر یہ سلسلہ آگے چلتا ہے تو یہ ملک کے لیے بہت اچھا ہے اس سے کرپشن فری پاکستان بننے میں مدد ملے گی اس کے لیے نیب اور احتساب کے اداروں کو کرپشن میں ملوث دیگر پارٹیوں کے طاقتور لوگوں ڈاکٹر عاصم،شرجیل میمن، اور عزیربلوچ جیسے لوگوں کیخلاف بھی کاروائی کرنی چاہیے ۔ تاکہ اداروں پر جانبداری کا الزام نہ آئے۔ اس وقت میاں نواز شریف کو الیکشن کے دنوں میں سزا ملنے سے نہ صرف مسلم لیگ ن کو ا بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ یہ شریف خاندان کے سیاسی مستقبل کے لیے بھی خطرناک ہے۔الیکشن کے دنوں میں میاں نواز شریف کو پاکستان میں رہ کر پارٹی کی کامیابی اور اپنی سیاسی بقا کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔
وہ اپنے خلاف احتساب عدالت میںاپنا دفاع کرنے کی بجائے لندن میں زیرعلاج اپنی بیگم کلثوم نواز کے پاس چلے گئے پہلے تو انھیں اپنی بیگم کا علاج پاکستان کے کی کسی ہسپتال میں کرانا چاہیے تھا جہاں پاکستاں کے بیس کروڑ عوام اپنا علاج کراتے ہیں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں کے ہسپتالوں میں علاج معالجے کی بہتر سہولتیں میسر نہیں تو یہ کس کا قصور ہے کہ انھوں نے اپنے تیس سالہ دورحکومت میں ایسا کوئی ہسپتال نہیں بنایا جہاں ان کی بیگم کے علاوہ ملک کے کروڑوں لوگوں کو علاج کی بہتر سہولت مُیسر ہوتیں لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیاوہ اپنی بیگم کو تو علاج کے لیے لندن لے گئے لیکن کروڑوںعوام تو اپنے علاج کے لیے لندن نہیں جاسکتے ۔ویسے تو مسلم لیگ ن اور شریف فیملی پر برا وقت ہے لیکن میاں نوازشریف کو اس برے وقت کا جرات اور بہادری کیساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اپنی پارٹی اور کارکنوں کے درمیان رہنا چاہیے تھا لیکن انھوں نے ایسا کرنے کی بجائے لندن چلے جانا مناسب سمجھا جس کا انھیں اور ان کی جماعت کو الیکشن میں بہت زیادہ نقصان ہوسکتا ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شائد ا نھوں نے اس بات کا احساس کرلیا ہے کہ انھیں ان حالات میں پارٹی کے لیے پاکستان میں ہونا چاہیے اسی لیے انھوں نے تیرہ جولائی کو پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا ہے پاکستان آنے کے فیصلے سے ہوسکتا ہے کہ انھیں جیل جانا پڑے لیکن اس سے نوازشریف اور ان کی پارٹی کو الیکشن میں فائدہ مل سکتا ہے۔
یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کو یہ حالات کیوں دیکھنا پڑرہے ہیں تو اس کے لیے عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میاں نوازشریف جو جنرل ضیاء کے دور حکومت کے دوران سیاست میں داخل ہوئے تھے ان کا تعلق دائیں بازو کی سیاست سے تھا لیکن اقتدار میں آکر انھوں نے اپنی سیاسی سوچ میں تبدیل کرلی خاص طور پر جنرل پرویز کے ہاتھوں اقتدار سے محرومی اور جلاوطنی کے بعد انھوں نے اقتدار کے لیے بائیں بازو کی پیپلز پارٹی کی محترمہ بینظیربھٹو کیساتھ معائدہ کیا اور اس کے بعد آصف زرداری کیساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرکے اپنے اقتدار کی مدت پوری کرنے کی کوشش کی۔اس دوران ڈان لیکس کا معاملہ رونما ہوا اس معاملہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے وفاقی وزیر پرویز رشید کو وزارت سے بھی فارغ کیا گیااس کے باوجود عسکری قیادت کیساتھ تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی۔بھارتی وزیراعظم مودی کیساتھ دوستی کی پینگیں اور مسئلہ کشمیر اور بھارتی جاسوس کلبھوشن کی گرفتاری پر میاں نوازشریف کی پراسرار خاموشی مسلم لیگ ن کی طرف سے امیدوار اسمبلی کے نامزدگی فارم سے ختم نبوتۖ کی شق میں تبدیلی جس کے نتیجے میں وفاقی وزیر قانون زاہدحامد کو استعفیٰ دینا پڑا۔
عاشق رسول ۖممتاز قادری کی پھانسی اور ایسے دیگر کئی اقدامات ہیں جسے عوام کی اکثریت نے ناپسند کیا۔ایسے میں پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے اور کرپشن کیخلاف مہم نے بھی میاں نوازشریف کی مقبولیت کو متاثر کیا۔سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ وزارت عظمیٰ سے نااہلی کے بعد میاں نوازشریف نے پوری قوت کیساتھ عدلیہ اور اداروں کیساتھ ٹکرائو کی جارحانہ پالیسی اختیار کرلی اس چیز میں یہ لوگ اس حد تک آگے چلے گئے کہ کھلم کھلا عدلیہ کی تضحیک شروع کردی جسے اداروں کیساتھ عوام کی اکثریت نے بھی ناپسند کیا ایک موقع پر نوازشریف نے شیخ مجیب کی پاکستان سے علیحدگی کے جواز اور بنگلہ دیش کے قیام کی وکالت کرنا بھی شروع کردی یہاں تک کہ چند مہنے پہلے بھارت کے شہر بمبئی حملے کے حوالے سے انھوں نے ایسا بیان داغ دیا جس سے ہندوستان کے موقف کی تائید ہوتی تھی یوں کہا جاسکتا ہے کہاپنے اقتدار سے محرومی کو میاں نوازشریف نے دلی طور پر قبول اور برداشت نہیں کیا اور اس فیصلے کو ملک اور جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا۔
حالانکہ پانامہ کیس میں ان کی وزارت عظمیٰ سے علیحدگی کے بعد بھی ان کی جماعت ہی برسراقتدار رہی اور انھوں نے ہی اپنی جگہ شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم نامزد کیا اور جمہوریت کی گاڑی بھی حسب معمول پٹری پر اپنی رفتار سے چلتی رہی ۔لیکن میاں نواز شریف نے وزارت عظمیٰ سے علیحدگی اور اپنے اوپر لگنے والے کرپشن کے الزامات کا دفاع کرنے کے لیے قانونی راستہ اپنانے کی بجائے جذباتیت سے کام لینا شروع کردیا اور کھلم کھلا اداروں سے ٹکرائو کی پالیسی اختیار کرلی اور معاملات کو بہت آگے لے گئے اس دوران الیکشن کا ہنگامہ برپا ہوچکا ہے۔ اب سارا معاملہ احتساب اداروں،عدلیہ کے علاوہ الیکشن کے میدان کے اندر عوام کے ہاتھوں میں ہے کہ وہ کیا فیصلہ دیتے ہیں۔سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق الیکشن کے نتیجے میں کوئی ایک پارٹی واضح اکثریت حاصل کرتی نظر نہیں آتی خیال یہی کہ ایک مخلوط حکومت بنے گی البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس مخلوط حکومت میں پاکستان تحریک انصاف کے پاس گیم نمبر زیادہ ہونگے لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ایک مخلوط ھکومت کی صورت میں عمران خان اپنے تبدیلی کے نعرے پر کس حد تک عمل کرسکیں گے اور ملک کی سیاست میں میاں نوازشریف اور ان کی پارٹی کا کیا کردار ہوگا۔اس کے لیے الیکشن میں عوام کے فیصلے اور اگلی حکومت بننے تک انتظار کرنا ہوگا۔کیوںکہ سیاست میں حالات و واقعات کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔