تحریر : عقیل خان لودھراں کے ضمنی الیکشن کا پاکستانی عوام کو بڑی شدت سے انتظار تھا۔ یہ انتظار ایسے تھا جیسے پاک بھارت میچ کا ہوتا ہے۔ اس ضمنی الیکشن کی اہم بات یہ تھی کہ یہ الیکشن اس سیٹ پر ہورہا تھا جس کے ایم این اے کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تھا۔ وہ نااہل ایم این اے کون تھا ؟ جی یہ تحریک انصاف کے صف اول کے رہنما جہانگیر خان ترین تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے پہلے اسی سپریم کورٹ نے ن لیگ کے سربراہ اور وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کو تمام عمر کے لے نااہل قرار دیا تھا۔ جب اس سیٹ پرضمنی الیکشن ہوا توخاندانی سیاست کے تحت اس سیٹ پر ان کی بیگم کلثوم نوازکو الیکشن لڑوایا گیا جس میں بڑے بلند و بانگ دعوے سننے کو ملے۔دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ مقابلہ ویسے تو بہت سے امیدواروں کے درمیان تھا مگر اصل مقابلہ دو خواتین کا تھا ۔ تحریک انصاف کی ڈاکٹر راشدہ یاسمین اور ن لیگ کی بیگم کلثوم نواز کے اورجیت بیگم کلثوم نواز کا مقدر بنی۔ اب جب کورٹ نے جہانگیر ترین کو تمام عمر کے لیے نااہل قرار دیا تو اس خالی سیٹ پر وہ تحریک انصاف جو خاندانی سیاست کے خلاف ہے اس نے بھی مورثی سیاستدانوں کی طرح خاندانی سیاست کو فروغ دیتے ہوئے جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کو ٹکٹ سے نوازا۔ہر طرف یہی امید کی جارہی تھی کہ اس سیٹ پر باآسانی علی ترین جیت جائیگا کیونکہ ان کے مد مقابل کوئی نامور شخصیت نہیں تھی۔ تبصرہ و تجزیہ نگار ٹی وی پر روزانہ علی ترین کو سیٹ ڈش میں رکھ کر پیش کررہے تھے۔
الیکشن کمیشن کی اجازت نہ ملنے کے باوجود اس ضمنی الیکشن میں عمران خان نے جلسہ بھی کیا۔لوگوں کا گمان تھا کہ امیر ترین کا بیٹا اپنے باپ کی سیٹ پر باآسانی قابض ہوجائے گا مگر ہوناتو وہی تھا جو اللہ کو منظور ہو۔ لودھراں کے حلقہ 154 میں جب سیٹ خالی ہوئی تو چند ہی دن میں تحریک انصاف کے قائد عمران نے ٹکٹ کا قرعہ جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کے نام نکال دیا تھا جبکہ حکمران جماعت ضلع لو دہراں میں انتشار کا شکار ہونے کے باعث اپنا امیدوار فائنل نہیں کر سکی ہے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے اصرار کے باوجود سابق ایم این اے صدیق خا ں بلوچ نے اپنے بیٹے عمیر خاں بلوچ کو مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر میدان میں اتارنے سے صاف انکار کردیا ۔صدیق خاں بلوچ کے واضح انکار کے بعد حکمران جماعت کا ٹکٹ سابق تحصیل ناظم پیر محمد اقبال شاہ کودے دیا گیا۔
حلقہ این اے 154 میں کل ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 31 ہزار 2 ہے جن میں مرد ووٹرز 2 لاکھ 36 ہزار 496 اور خواتین ووٹرز کی تعداد 1 لاکھ 94 ہزار 506 ہے۔صبح 8 بجے پولنگ شروع ہوئی جو شام 5 بجے تک بغیر کسی وقفہ کے جاری رہی۔ حلقے میں تحریک انصاف، مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی سمیت 10 امیدوار مدمقابل تھے12فروری کو جب الیکشن ہواتو ہر طرف گہما گہمی تھی۔ ووٹرز نے بھی اپنابھرپور کردار ادا کیا۔ پولنگ کے اختتام ہونے پر ہر کوئی نتائج کا منتظر تھااور پھر نتائج آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔تمام 338 پولنگ اسٹیشن کے نتائج آنے کے بعد غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے تحریک انصاف کو شکست دے دی۔مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اقبال شاہ نے ایک لاکھ 13ہزار 452 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جب کہ پی ٹی آئی کے امیدوار علی خان ترین 85 ہزار 933 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے ، یوں اقبال شاہ نے پی ٹی آئی کے امیدوار کو 27 ہزار 519 ووٹوں سے شکست دی۔اس الیکشن کی خاص بات تحریک لبیک کے امیدوار کی تیسری پوزیشن حاصل کرنا تھا کیونکہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کی دعویدار پیپلز پارٹی کا امیدوار تحریک لبیک کے امیدوار کو بھی شکست نہ دے سکا۔
ضمنی الیکشن کے بعد تمام پارٹیوں کو اپنی اپنی حیثیت کا پتہ چل گیا مگر عمران خان جو آنے والے الیکشن میں جیت کر وزیراعظم بننے کے جو خواب دیکھ رہے ہیں ان کے خواب کو علی ترین نے چکنا چور کردیا ۔ ن لیگ جس کو تمام پارٹیاں زوال کی طرف دھکیل رہی ہیں اس کی کارکردگی نے ان پارٹیوں کو کچھ نہ کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔ کچھ تو بات ہے جس کی پردہ پوشی کی جارہی ہے۔ اس ضمنی الیکشن نے کئی سوالوں کو جنم دے دیا ہے۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ اگلے جنرل الیکشن میں ایک بار پھر جیت ن لیگ کا مقدر بنے گی؟ کہیں عمران خان کو شکست کا مزا جان بوجھ کرتونہیں دکھایا گیا ؟کیا واقعی نواز شریف ابھی عوام کے دلوں کی دھڑکن ہیں؟ کہیں عمران خان کی نااہلی کے بجائے جہانگیر ترین کی نااہلی اس شکست کی وجہ بنی ہو؟ میاں نوازشریف جو ہر جلسے میں پوچھتے تھے کہ مجھے کیوں نکالا ؟ اس کاجواب تو ابھی تک کسی نے نہیں دیا مگر علی ترین کی شکست کے بعد ن لیگی کارکنان کو اب یہ کہتے ضرور سنا ہے کہ” مجھے یوں نکالا”عوامی عدالت نے ایک بار پھر ن لیگ کے حق فیصلہ دے دیا ہے مگر ابھی جنرل الیکشن کا انتظار رہے جس میں حقیقت واضح ہوگی کہ مجھے کیوں نکالا یا مجھے یوں نکالا۔