تحریر : پروفیسر رفعت مظہر پاناما پیپرز کا کم از کم ایک فائدہ تو ہوا کہ ایک سال قبل ہی انتخابی گہماگہمی نہ صرف شروع ہو گئی بلکہ اُس میں تیزی بھی آنے لگی ۔ جب ہمارے کپتان صاحب نے نواز لیگ کو ”وخت” میں ڈالا اور کسی بھی صورت میں پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوئے تو نواز لیگ نے ایک ”ممولے” کے ذریعے شہباز سے پنجہ آزمائی شروع کر دی ۔نون لیگ کے حنیف عباسی کپتان اور جہانگیر ترین ، دونوں کو عدالت میں گھسیٹ لائے کہ وہ اپنی آف شور کمپنیوں ، ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کا جواب دیں۔ اب چیف جسٹس سپریم کورٹ ، جسٹس ثاقب نثارنے اپنی سربراہی میں تین رکنی بنچ قائم کر دیا ہے۔ پاناما پیپرز میں تو کپتان ہر روز سپریم کورٹ کے باہر شریف فیملی پر کھُل کر تنقید کرتے اور طنز کے تیر برساتے رہتے ۔ اُن کے حواری بھی میلہ لوٹنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے لیکن اب ہر روز درخواست گزار حنیف عباسی اور نوازلیگ کے دوسرے رہنما کپتان اور جہانگیر ترین کے خلاف کھُل کر بول رہے ہیں لیکن نہ تو کہیں کپتان صاحب نظر آتے ہیں ، نہ اُن کے حواری ۔ کیونکہ اُن کے پاس کہنے کو کچھ نہیں لیکن اُنہیں جواب تو بہرحال دینا ہی ہو گا کہ اُنہوں نے اپنی آف شور کمپنیوں کا کاغذاتِ نامزدگی داخل کرواتے وقت الیکشن کمیشن میں ذکر کیوں نہیں کیا ۔ اِس کے علاوہ کپتان صاحب کو یہ جواب بھی دینا ہے کہ بنی گالہ کی زمین کے بارے میں اُن کے اور اُن کی سابقہ بیوی کے چار بیانات میں سے کونسا درست ہے؟۔
ویسے بظاہر تو یہ مقدمہ بہت سیدھا سادا نظر آتا ہے اور وکلا بھی اپنی قانونی موشگافیوں کے باوجود اِسے زیادہ دیر تک طول دینے سے قاصر ہی رہیں گے کیونکہ عمران خاں اور جہانگیر ترین میں سے کسی نے بھی پاکستان کے کسی بھی ادارے کے سامنے اپنی کمپنیاں ڈِکلیئر نہیں کیں اور وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ آف شور کمپنیاں اُنہی کی ہیں ۔ جب عمران خاں اور جہانگیر ترین تسلیم کر چکے کہ یہ کمپنیاں اُنہیں کی ہیں اور اُنہیں الیکشن کمیشن کے سامنے ڈِکلیئر بھی نہیں کیا گیا تو پھر وہ صادق و امین نہیں رہتے اور اُن پر آرٹیکل 62/63 کا اطلاق ہونا لازم ٹھہرتا ہے ۔ پاناما پیپرز میںوزیرِاعظم کے خلاف تحریکِ انصاف یہی کیس لے کر گئی کہ وزیرِاعظم صادق و امین نہیں ، اِس لیے اُن پر آرٹیکل 62/63 کا اطلاق کیا جائے لیکن تحریکِ انصاف اُن کے خلاف کوئی ایک ٹھوس ثبوت بھی پیش نہ کر سکی اور جو ثبوت پیش کیے گئے ، اُنہیں سپریم کورٹ نے رَدی کی ٹوکری کے قابل قرار دیا ۔ یہ بھی طے کہ وزیرِاعظم کی کوئی آف شور کمپنی نہیں ، نہ ہی اُن کا نام پاناما پیپرز میں ہے ۔ بیرونی ممالک میں جتنی بھی جائیداد ہے ، اُن کے بچوں کے نام پر ہے ۔ مَنی لانڈرنگ کا بھی اُن کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ۔ اِسی بنا پر پانچ رکنی بنچ نے تحقیقاتی کمیشن قائم کیا تاکہ اگر کوئی ثبوت ہو تو سامنے لایا جا سکے ۔ اگر وزیرِاعظم کے خلاف تحقیقاتی کمیشن کو کوئی ثبوت مِل جاتا ہے تو تبھی وہ نا اہل قرار دیئے جاسکتے ہیں لیکن عمران خاں اور جہانگیر ترین تو خود ہی سب کچھ تسلیم کر چکے پھر وہ نا اہلی سے کیسے بچ پائیں گے۔
کپتان کو میڈیا میں ”اِن” رہنے کے کئی گُر آتے ہیں جنہیں وقتاََ فوقتاََ وہ آزماتے بھی رہتے ہیں ۔ جب پاناما کیس میں 2 معزز جج صاحبان کا فیصلہ وزیرِاعظم کے خلاف آیا تو کپتان یہ بھول بیٹھے کہ اکثریتی فیصلہ ہی اصل فیصلہ ہوتا ہے ۔ وہ 2 جج صاحبان کے اختلافی نوٹ ہی کی ہر جگہ تکرار کرتے رہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے رہے کہ پورے بنچ نے میاں صاحب کو جھوٹا قرر دیا ہے جس پر معزز بنچ کو یہ وضاحت کرنی پڑی کہ کسی نے بھی وزیرِاعظم کو جھوٹا قرار نہیں دیا ، ساتھ ہی آئندہ ایسا کرنے سے منع بھی کر دیا ۔ یہ دراصل معزز بنچ کی طرف سے کپتان کو ”شٹ اَپ کال”تھی ۔ اِسی دوران کپتان نے ایک اور پینترا بدلتے ہوئے یہ کھڑاک کر دیا کہ حکمرانوں نے اُنہیں پاناما پیپرز پر زبان بند رکھنے کے لیے 10 ارب روپے کی پیشکش کی تھی ۔ اُنہوں نے پہلے میاں نوازشریف ، پھر میاں شہباز شریف ، اُس کے بعد حمزہ شہباز ، پھر ہمزہ شہباز اور اُن کے کسی مشترکہ دوست ، اور پھر دوست کے دوست پر رقم کی پیشکش کا الزام دَھر کر سبھی کو چکرا کے رکھ دیا ۔ لیکن دوست کا نام لینے سے یہ کہہ کر گریز کرتے رہے کہ وہ کاروباری شخص ہے جسے میاں برادران نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ جب میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے اُن کو کورٹ میں گھسیٹنے کی دھمکی دی تو کپتان نے جوابی دھمکی دیتے ہوئے کہا ” کورٹ میں مت جانا ، اگر گئے تو اُس شخص کا نام بتا دوں گا” ۔ اب میاں شہباز شریف اُنہیں لیگل نوٹس دے چکے ہیں لیکن اُس شخص کا نام تا حال سامنے نہیں آیا اور نہ ہی آنے کی توقع کیونکہ جب ایسے کسی شخص کا وجود ہی نہیں تو نام کیا خاک سامنے آئے گا ۔ یہ معاملہ بھی پینتیس پنکچر جیسا ہی لگتا ہے جب عمران خاں نے نجم سیٹھی کے خلاف پوری شَد و مَد سے الزام تراشیاں کیں اور پھر یہ کہہ دیا ”وہ تو سیاسی بیان تھا”۔ اُن سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا سیاسی بیانات جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں ؟۔ کیا سیاست اِسی کو کہتے ہیں کہ جس کی جی چاہے ، پگڑی اچھال دو ؟۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر کپتان کو بے بنیاد الزام تراشیوں میں اتنا مزہ کیوں آتا ہے ۔ 2011ء سے اب تک اُنہوں نے جتنے الزام بھی لگائے ، اُن میں سے کسی ایک کو بھی وہ ثابت نہیں کر سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب لوگ اُن کی باتوں پر کم کم ہی اعتبار کرتے ہیں۔
اب ایک طرف پاناما پیپرز کا تین رکنی بنچ ہے جو ہر پندرہ دِن بعد تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ لے گا اور دوسری طرف چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں ایک اور تین رکنی بنچ جو کپتان اور جہانگیر ترین کی آف شور کمپنیوں کے بارے میں فیصلہ کرے گا ۔ گویا چوٹ برابر کی اور ہم جیسے لکھاریوں کی چاندی ہی چاندی کہ کالموں کا پیٹ بھرنے کے لیے ڈھیروں ڈھیر مواد دستیاب ۔ الیکٹرانک میڈی کی بھی پانچوں گھی میں کہ اب ”ریٹنگ” کوئی مسٔلہ ہی نہیںکیونکہ نوازلیگ ، تحریکِ انصاف اور پیپلزپارٹی ، تینوں لنگوٹ کَس کر میدان میں ہیں ۔اب زرداری صاحب بھی ”بڑھکیں شڑکیں” لگا رہے ہیں لیکن اُن کی بڑھکوں میں اب وہ دَم نہیں اور یہ تو طے ہے کہ لنگڑے گھوڑے پر کوئی داؤ نہیں کھیلا کرتا ۔ اِس لیے فی الحال تو اُن کی طرف کوئی رجوع نہیں کر رہا اورمستقبل قریب میں اِس کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ دیہی سندھ تک محدود رہ جانے والی پیپلزپارٹی 2018ء کے انتخابات میں بھی کوئی کارنامہ سرانجام دینے سے قاصر ہی رہے گی ۔ مسلم لیگ نواز کا سارا فوکس تحریکِ انصاف پر ہی ہے اور تحریکِ انصاف کا ٹارگِٹ نوازلیگ ۔ البتہ دونوں کی ہلکی پھلکی موسیقی پیپلز پارٹی کے خلاف بھی چلتی رہتی ہے۔