سیاسی اکھاڑا تیار ہورہا ہے ،دنگل سجنے والا ہے، انتخابات کا بگل بج چکا ہے اورپاکستان کی سیاسی جماعتیں پرفریب وعدوں اور لایعنی دعوؤں پر مبنی اپنے اپنے منشور کا اعلان کرکے عوامی ہمددری حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہیں،یوں11 مئی کو پاکستانی تاریخ کے دسویں دلچسپ اور منفرد انتخابات ہونے جارہے ہیں، جو ابھی تک غیر یقینی کیفیت اور ابہام کا شکار ہیں، رائے عامہ کے جائزے کے مطابق 11مئی کو ہونے والے الیکشن میں مسلم لیگ(ن)، پی پی پی اور تحریک انصاف کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا جو اِن جماعتوں کے مستقبل کا تعین کرے گا۔
اب جبکہ قوم ایک بار پھر انتخابی تجربے سے گزرنے اور اپنے آنے والے حکمرانوں کے انتخاب کا فیصلہ کرنے جارہی ہے ،دیکھنا یہ ہے کہ کیا انتخابی نتائج ملک و قوم کی تقدیر بدل سکیں گے؟ قومی مصائب وآلام کو کم کرسکیں گے؟اور عوام کو پرامن و آسودہ حال زندگی دیںسکیں گے۔ ؟ گواِن تمام سوالوں کے جواب تو الیکشن کے بعد ہی ملیں گے،مگر ایک بات طے ہے کہ اِس دوران دنیا بھر میں بہت سی انقلابی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں لیکن پاکستان دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں کا اصل مرکز ہے جو افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد سے مسلسل حالت جنگ میں ہے۔
امریکہ بظاہر تو افغانستان پر قابض ہے، لیکن پوری دنیا پر امریکی قبضے اور انسانیت دشمن سامراجی نظام کے تسلط کیلئے پاکستان کے نظام سیاست و حکومت پربھی اپنا قبضہ چاہتا ہے ۔لیکن اِس دوران امریکہ اور عالمی سامراجیت کے خلاف پاکستانی عوام کا شعور پختہ ہوا ہے اور پاکستانی عوام اِس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ہمارے قومی وملی مسائل کا حل اور اخروی نجات کا ذریعہ صرف اور صرف دین اسلام سے وابستگی میں ہے۔
گذشتہ دنوں ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے پر شائع ہونے والی رپورٹ بھی اِس بات کی گواہ ہے کہ پاکستانی نوجوان اپنے قومی وملی مسائل کاحل نفاذ اسلام کو سمجھتے ہیں،اَمر واقعہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام امریکہ اور اُس کے آلہ کار حکمران اور بدعنوان سیاستدانوں کو موجودہ مصائب وآلام کاذمہ دار سمجھتے ہیں،یہی وجہ ہے جنرل پرویزمشرف اور اُن کے سیاسی جانشین عوام میں سب سے زیادہ غیر مقبول ہیں،چنانچہ اِن حالات میں نائین الیون کے بعد ملک میں تیسرے اہم انتخابات کا اصل موضوع ہی یہ ہے کہ کیا انتخابات کے نتائج قوم کے اصل جذبات، آرزوئوں اور تمناوں کی نمائندگی کرسکیں گے۔
اگر انتخابات کے ذریعے پاکستان کے عوام کی حقیقی آواز ایوانوں میں پہنچ گئی تو کیا امریکی عزائم ناکام ہوجائیں گے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں متوقع انتخابی نتائج کی اصل فکر امریکہ اور امریکہ نواز قوتوں کو بہت زیادہ ہے،دوسری جانب ایک عام پاکستانی مہنگائی، بیروزگاری اور کرپشن سے نجات چاہتا ہے،مگر اِن سب تبدیلیوں کا تعلق آئین کی حکمرانی اور قانون کی بالادستی سے ہے،جو ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کا بنیادی سبب ہے ، لیکن ہماری سیاسی جماعتوں کے قائدین میں اِس فہم ادراک کا فقدان ہے۔
Pakistan Vote
اَمر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا انتخاب ہے جو آج بھی امیدوں، وسوسوں، اندیشوں اور خطرات کے درمیان گھرا ہوا ہے،ملک کے تین صوبوں میں امن و عامہ کی صورتحال تشویشناک حد تک خراب ہے،اب جبکہ عام انتخابات میں صرف چند دن باقی رہ گئے ہیں، لیکن انتخابی گہما گہمی اور جوش کا فقدان ہے ،بے یقینی کے بادل چھٹنے کا نام نہیں لے رہے، ہرزبان پرایک ہی سوال ہے کیا الیکشن ہوجائیں گے ؟ یہ شک اُس وقت اور بھی بڑھ جاتا ہے جب نگران حکومت یہ کہتی ہے کہ” عوام افواہوں پرکان نہ دھریں الیکشن وقت پرہوں گے”تولوگ سوچتے ہیں۔
کیا الیکشن وقت پر نہ ہونے کا امکان باقی ہے،دوسری جانب دہشت گردی کی کارروائیاں اِن خدشات میں مزید اضافے کا باعث بن رہی ہیں، کوئٹہ،پشاور،سوات،ڈی آئی خان،جیکب آباد اور کراچی میں متحدہ و اے این پی کے الیکشن دفاترپر ہونیوالے بم دھماکے خطرے کا سگنل ہیں،جس سے الیکشن کے التوا کے خدشات بڑھتے جارہے ہیں،اِن واقعات پر غیر معمولی ردعمل سے محسوس ہو رہا ہے کہ انتخابات کو سبوتاڑ کرنے کیلئے شرانگیز کارروائیوں کا دائرہ وسیع کیا جا رہا ہے، یہ بھی خیال کیا جارہا ہے کہ پے درپے اِس قسم کے واقعات کا مقصد الیکشن کے التوا کا جواز فراہم کرنا ہے،یہ صورتحال اور بھی غیر یقینی کی کیفیت کو جنم دے رہی ہے۔
اب جبکہ انتخابات میں صرف چند دن باقی رہ گئے ہیں، حال یہ ہے کہ ملک کے تین صوبوں میں کوئی بھی سیاسی جماعت ابھی تک جلسے جلوسوں کی سیاست شروع نہیں کرسکی ہے ، صرف پنجاب میں ایسا لگتا ہے کہ الیکشن ہونے جارہے ہیں،جہاں سب سے زیادہ پرجوش نواز شریف اورعمران خان نظر آ رہے ہیں،جن کی انتخابی سرگرمیاں جلسے جلوسوں کے علاوہ میڈیا میں اشتہارات کی صورت میں بھی عروج پرہیں،پنجاب کا انتخابی منظر نامہ بتارہا ہے۔
اِس بار پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف اصل مقابلہ ہوگا، جبکہ پنجاب کے مقابلے میں ملک کے دیگر صوبوں میں انتخابی مہم میں وہ گہماگہمی نظر نہیں آرہی،پشاور میں اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور پر خودکش حملے کے بعد سے ماحول پر اب بھی خوف اور جمود کی فضا طاری ہے اورسیاسی گہماگہمی مفقود ہے،ایک طرف بڑی سیاسی جماعتیں دہشت گردوں کے حملے کے باعث جمود کا شکار ہیں تو دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع کے طوفانی دورہ کرچکے ہیں۔
اِن کے دوروں نے جمعیت علمائے اسلام، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کیلئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے، جبکہ پیپلزپارٹی اور اُس کی اتحادی جماعتوں کی انتخابی مہم بھی پھیکی نظر آتی ہے،وہ سکیورٹی کے خطرات کے پیش نظر بڑے جلسوں پر مبنی انتخابی مہم سے گریز کر رہے ہیں۔دوسری طرف نواز شریف انتخابی سیاست میں زیادہ مضبوط نظر آتے ہیں ،سیاسی تجزیہ نگار بھی نواز شریف کو بہت زیادہ اہمیت دے رہے ہیں ،اُن کے خیال میں نواز شریف اگلی حکومت بنانے کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔
امریکی اسٹیبلشمنٹ کے بعض خفیہ سروے میں یہ امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ انتخابی نتائج میں کوئی بھی جماعت واضح اکثریت نہیں حاصل کرسکے گی، جماعت اسلامی جس کا نوازشریف اور عمران خان دونوں سے اتحاد نہیں ہو سکا ،اب وہ تنہا میدان میں ہے، جبکہ نواز شریف کی بے وفائی کی وجہ سے جمعیت علماء پاکستان کا بھی یہی حال ہے ، جس کے امیدواروں نے ابھی تک اپنی انتخابی مہم بھی شروع نہیں کی ،ویسے بھی اِن جماعتوں کے کامیابی کے امکانات بہت ہی معدوم ہیں۔
People Party
سندھ میں پیپلز پارٹی اور متحدہ کے امیدواروں کا مقابلہ کرنے کیلئے پیر پگارہ کی قیادت میں 10 جماعتی اتحاد قائم کیا گیا ہے، جس میں مسلم لیگ فنکشنل،مسلم لیگ ن،،جمعیت علماء پاکستان ،جماعت اسلامی،جمعیت علماء اسلام ف،نیشنل پیپلز پارٹی ، سنی تحریک اور قوم پرست جماعتیں شامل ہیں، سندھ کے دیہی صورتحال کے برعکس کراچی اورحیدر آباد میں دس جماعتی اتحاد شدید اختلافات کا شکار ہے ، پھر بھی توقع ہے کہ یہ دس جماعتی اتحاد پیپلز پارٹی اور متحدہ کو ٹف ٹائم دے گا۔
دوسری طرف کراچی میں متحدہ کے الیکشن دفاترپر حملوں نے انتخابات میں متحدہ کی شرکت کے حوالے ابہام پیدا کردیا ہے ، غالب امکان یہی ہے کہ یوم سوگ اورہڑتالیں متحدہ کو انتخابی بائیکاٹ کی طرف لے جاسکتی ہیں، ویسے بھی اِس وقت متحدہ کو کراچی اور حیدرآباد کی سیاست میں اپنی قوت برقرار رکھنے میں خاصی مشکلات کا سامنا ہے، دوسری طرف مجلس وحدت المسلمین بھی انتخابی میدان میں موجود ہے جبکہ مہاجر قومی موومنٹ کے چیئر مین آفاق احمد بھی انتخابی میدان میں اتر چکے ہیں اور اُن کی پوری کوشش ہے کہ وہ کراچی سے کوئی نشست جیت لیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انتخابی مہم کی شدت میں کمی کی وجوہات میں سیکورٹی اور دہشت گردی کا معاملہ سرفہرست ہے، اِس میں کچھ شک نہیں کہ ملک میں سیکورٹی کا معاملہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے جو کہ ذمہ داری حکومت کی ہے،ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں بم دھماکوں کے پیچھے وہی قوتیں کار فرما ہیں جو انتخابات کو ملتوی کرانا چاہتی ہیں،کیونکہ سیاسی بعض قوتوں پہلے ہی دہشت گردی کی بنیادپرانتخابات سے فرار کا عندیہ ظاہر کرچکی ہیں اوردہشت گردی کا مزید کوئی بڑا واقعہ انہیں باآسانی فرار کا راستے پر لے جاسکتا ہے۔
دوسری جانب نگراں حکومت کے وزیر داخلہ ملک حبیب پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر دہشت گردی کا کوئی واقعہ سامنے آیا تو پْرامن انتخابات کی ضمانت نہیں دے سکیں گے،یہی وجہ ہے کہ بروقت انتخابات کے انعقاد پر مکمل اتفاق رائے رکھنے کے باوجود سیاسی جماعتیںآزادانہ بنیاد پر انتخابی مہم چلانے سے قاصر نظر آتی ہیں،اس حوالے سے سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی نے بھی انتخابات کی صحت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر صدر زرداری، نوازشریف اور عمران خان انتخابات کی تاریخ میں توسیع چاہتے ہیں تو اِس پر غور کیا جاسکتا ہے۔
Asif Ali Zardari
جبکہ صدر زرداری کے قریبی ساتھی فیصل رضا عابدی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ملک میں فوری انتخابات ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ،پاکستان کے انتخابی ابہام میں ایک سوال طاہر القادری اور جنرل(ر) پرویزمشرف کے گرد بھی گھوم رہا ہے کہ وہ کس ایجنڈے کے تحت انتخابات سے قبل پاکستان آئے ہیں اور اُن کے پیچھے کون لوگ ہیں؟اِن دونوں حضرات کی آمد کے عمل نے انتخابی عمل انعقاد کے حوالے سے مزید شکوک وشبہات پیدا کردیے ہیں۔
اَمر واقعہ یہ ہے پاکستان اِس وقت جن بڑے بحرانوں میں گھرا ہوا ہے اُس میں ایک مضبوط سیاسی مینڈیٹ کی ضرورت ہے، لیکن موجودہ حالات میں اِس کے امکان بہت ہی کم ہے کہ کوئی جماعت تنہا حکومت بناسکے ،جس کی وجہ سے ایک غیر یقینی کیفیت سامنے کھڑی ہے،یہ پاکستان کا وہ منظرنامہ یہ ہے جو انتخابات سے پہلے سجایا گیا ہے ،جبکہ دوسرا منظرنامہ وہ ہوگا جو انتخابات کے بعد قوم کے سامنے آئے گا اور اصل کھیل الیکشن کے بعد شروع ہوگا۔ تحریر : محمد احمد ترازی mahmedtarazi@gmail.com