واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مرکزی انٹیلی جنیس ادارے سی آئی اے کی جانب میں نومبر کے صدراتی انتخابات میں ان کے حق میں روسی ایجنسیوں کی مدد کے الزام کو مضحکہ خیز اور احمقانہ قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں اس پر یقین نہیں کرتا۔ اگر آپ اس پر نظر ڈالیں جو کچھ سی آئی اے نے کہا ہے تو اس میں بہت گڑبڑ اور بوکھلاہٹ ہے۔ حقیقاً کوئی بھی کچھ نہیں جانتا ۔ آپ کو یہ پتا نہیں ہے کہ وہ روس ہے یا چین ہے یا کوئی اور ملک ہے۔ وہ کوئی بھی شخص ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ نے فاکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ صدر اوباما کے اس حکم کی مخالفت نہیں کرتے جو انہوں طویل صدراتی مہم کے دوران سائبر حملوں کا جائزہ لینے کے لیے جاری کیا۔ جس کے بارے میں سی آئی اے یہ سمجھتا ہے کہ وہ حملے روس کی جانب سے کیے گئے تھے۔
مسڑ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ آپ کو صرف روس کا نام نہیں لینا چاہیے۔ آپ کو دوسرے ملکوں کا بھی نام لینا چاہیے اور اس میں انفرادی طور پر دوسرے لوگ بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔
سی آئی اے نے کہا ہے کہ اسے پورا یقین ہے کہ روس وہائٹ ہاؤس کی دوڑ جیتنے میں ٹرمپ کی مدد کرنا چاہتا تھا۔
اباما انتظامیہ کے سینیئر عہدے داروں کا کہنا ہے کہ امریکی انٹیلی جینس ادارے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ روس نے ٹرمپ کی جیت کے لے صدراتی مہم کے آخری حصے میں مداخلت کی تھی، نہ کہ صرف امریکہ کے انتخابی عمل میں مداخلت کی، جیسا کہ پہلے خیال کیا جا رہا تھا۔
اس اندازے کی بنیاد کسی حد تک یہ معلومات ہیں کہ روس نے ڈیموکریٹک تنظیموں کے ساتھ ساتھ، ری پبلیکن نیشنل کمیٹی کے کمپیوٹر نظاموں کو ہیک کیا تھا، لیکن انہوں نے وکی لیکس کے ذریعے صرف ای میلزکو افشا کیا جو الجھاؤ اور پریشانی پیدا کرسکتی تھیں۔
ری پبلیکز ٹرمپ سی آئی اے کے اخذ کردہ نتائج کو مسترد کرتے ہیں، جب کہ 2008 میں صدراتی انتخاب ہارنے والے ایری زونا کے سینیٹر جان مکین اور تین دوسرے سینیٹرز نے انتخابات میں روسی مداخلت کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ چیز ہر امریکی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
حال ہی میں ایک بین الاقوامی کمپنی ایکسان کے سربراہ ریکس ٹلرسن کا نام وزیر خارجہ کے ایک مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آیا ہے جس کے روسی صدر کے ساتھ ذاتی تعلقات ہیں اور اس ملک میں کاروباری مفادات ہیں۔