الیکشن 2018 اور ہمارے حکمران

Election

Election

تحریر : منظور احمد فریدی
اللہ جل شانہ کی حمد وثناء اور ذات کبریا جناب محمد مصطفی پر درودوسلام کے لاتعداد نذرانے پیش کرتے ہوئے راقم نے آج اپنے قارئین کے حکم پر عام انتخابات کے حوالہ سے چند سطور ترتیب دی ہیں اس امید کے ساتھ کہ میرے قارئین میری کم علمی کے مطابق انہیں چند کلمات کو کافی سمجھیں گے۔

اللہ کریم نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اپنے نائب ہونے کا شرف بھی بخشا اپنی ساری مخلوق کو خالق نے اپنا کنبہ قرار دے کر انسان کو اس کنبے کا حاکم مقرر فرما دیا ہے کائنات کی ساری مخلوقات کو انسان کے لیے مسخر فرما کر اللہ نے آدم و بنی آدم کو ایک الگ شان عطا فرمادی انسان کو ان ساری خوبیوں سے نواز کر اپنا خلیفہ ہونے کا شرف بھی عطا کیا اور ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ میں انسان کو بہت ہی کمزور پیدا فرمایا ہے انسان کی کمزوریوں کی فہرست طویل ہے مگر یہاں موضوع حاکم وقت ہیں اللہ نے دین فطرت دین اسلام میں حکمرانی کے جو اصول وضع فرمائے ان کے مطابق ہر حاکم اپنی رعایا کا نوکر ہے اور ان کے ہر دکھ سکھ کا جوابدہ ہے۔

وطن عزیز مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان جو کہ صرف اسی بنیاد پر حاصل کیا گیا کہ مسلمانوں کے لیے ایک ایسی الگ ریاست ہو جس میں وہ اللہ اور اسکے رسول ۖ کے احکام کے مطابق رہ سکیں مگر اس ریاست کی یہ بد بختی روز اول سے ساتھ لگ گئی کہ اسے اسلامی طرز زندگی گزارنے والا حاکم نہ ملا اسلامی قوانین نہ بن سکے اور یوں اب اس ملک کی حالت ایسی ہے کہ اسلامی کہنا مذاق جمہوری لکھنا بھی معیوب لگتا ہے اس ریاست کے پہلے سے موجودہ دور تک کے حکمرانوں پر ایک نظر ڈال کر دیکھیں تو کوئی بھی ایسا فرد نہیں جو وہ مسلمان ہو جس کا حکم اللہ نے دیا ہے تقسیم کے وقت سے اب تک چند خاندانوں نے اسے ایسا یرغمال بنالیا کہ اب عوام میں وہ شعور بھی نہ رہا کہ سیاست صرف انہی خاندانوں کا حق نہیں بلکہ اس ملک کا ہر شہری جو مسلمان ہو اور اس میں یہ صلاحیت موجود ہو کہ وہ اللہ کے کنبہ پر حکومت کرسکتا ہے سیاست میں آجائے بلکہ موجودہ سیاست تو اتنی غلیظ ہو چکی کہ اسلام کے سراسر منافی کہیں دینی احکام کو تبدیل کرنے کی پلاننگ کی گئی تو کہیں اسلام کو فرسودہ نظام کہا گیا اور یہ سب اسی بنیاد پر کیا جارہا ہے کہ حاکم کو دین کا علم ہی نہیں اگر اسلامی قوانین کے دائرہ کار میں اقتدار دیا جائے تو اس ملک کے طبقہ اشرافیہ اسکے قریب بھٹکنے نہ آئیں اس کی وجوہات پر غور کیا جائے تو سب سے بڑی وجہ ذہنی غلامی ہے قوم جو اب شاید ایک قوم بھی نہ رہی محکوم رہ رہ کر اس قدر غلام بن گئی کہ اسے یہ شعور ہی نہ رہا کہ ہم میں سے ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہے۔

جمہوری حسن اس ریاست نے دیکھا ہی نہیں جہاں شرفاء کہلوانے والے ٹولہ کے لیے الگ اور رعایا کہلانے والوں کے لیے الگ الگ قوانین ہوں وہاں جمہوریت کیسی اسلامی طرز حکمرانی کی تاریخ میں سینکڑوں مثالیں موجود ہیں امیر المومنین عمر فاروق وقت کے بادشاہ ہوں اور داماد رسولۖ امام المتقین علی پر الزام لگ جائے الزام علیہ عدالت میں پیش ہوکر اپنے اوپر لگنے والے الزام کو غلط ثابت کرنے تک بادشاہ وقت کی کرسی کی پیشکش بھی قبول نہ کریں اور پاکستان میں وقت کا ایم پی اے غنڈہ گردی کرے مگر اسے استثنیٰ حاصل ہو یہ کیسا اسلامی ملک اور کیسی جمہوریت ہے جہاں غریب کو دو وقت کی روٹی کے لیے اپنے گردے بیچنے پڑیں اور جھوٹے شرفاء کے گھوڑے میوہ جات کھائیں اسلام تو ایسی حکمرانی کا تصور ہی نہیں دیتا حضرت عمر ہی کا دور ہے اور صوبائی گورنر کو ہدایت ملی کہ وہ چھنے ہوئے آٹا کی روٹی نہ کھائیں اپنے گھر کے سامنے کوئی ڈیوڑھی پردہ نہ بنائیں اور عربی گھوڑے پر سواری نہ کریں ریشمی کپڑے نہ پہنیں مصر کے گورنر کی شکایت موصول ہوئی کہ وہ ان احکامات پر پورا نہیں اترا تو بادشاہ وقت نے خفیہ اہلکار(انٹیلی جینس) بھیجے کہ جاکر شکایت کی چھان بین کریں اور اگر الزام درست ہو تو گورنر کو گرفتار کرکے ساتھ لے آئیں تاریخ گواہ ہے کہ ان اہلکاروں نے کوئی مک مکا کیا نہ گورنر کے عہدے کا لحاظ جاکر دیکھا تو ریشمی کپڑے پہنے عربی گھوڑے پر سوار غورنر مصر انہیں مل گیا انہوں نے ایک لہجہ بھی ضائع کیے بنا اسے گرفتار کرلیا اور امیر المومنین حضرت عمر کے سامنے پیش کردیا آپ نے ٹاٹ کا ایک کرتہ سلوایا اور گورنر کو پہنا دیا ہاتھ میں لاٹھی دے کر حکم دیا کہ ،،،تم انسانوں پر حکومت کے قابل نہیں ہو آج سے بیت المال کی بھیڑ بکریاں چرانے جائو،،، آج کون ہے جو اس کسوٹی پہ پورا اترے زمین چھان لیں نہ ہے نہ ملے گا اس نظام کو یہاں تک پہنچانے میں دوسری سب سے بڑی وجہ ہمارا طریق انتخاب ہے ملک میں خواندگی کی شرح جو آج سے بیس سال پہلے تھی ممکن ہے۔

آج بھی وہی ہو دنیا کی واحد ریاست پاکستان ہے جہاں ایک نائب قاصد کی نوکری کے لیے شرائط لاگو ہیں مگر وزیر اعظم بننے کے لیے صرف ووٹ لینا ہونگے خواہ کسی بھی طریقہ سے حاصل کیے جائیں اسلام میں عالم اور جاہل کو برابر ی نہ دی گئی ہے مگر ووٹ کے اندراج میں تعلیم کا کوئی سوال ہی نہیں حالیہ مردم شماری میں بہت سے ایسے واقعات دیکھنے کو ملے ایک گائوں میں جاگیر دار کے ملازمین سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ انکا مذہب کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ جو میاں صاحب کہیں لکھ لو تو ایسے ووٹروں کے ووٹ سے اولیاء اللہ کب آگے آئینگے بلکہ وہی لوگ ہی کامیاب ہونگے جو اس ملک کو اپنے باپ دادا کی وراثتی جاگیر سمجھتے ہیں ۔میرا تعلق بھی کچھ ایسے ہی علاقہ سے ہے جہاں میرے بچپن سے اب تک ایک دو گھر ہی سیاست کے باوے ہیں کوئی تیسرا فریق پیدا ہی نہیں ہوتا اور اب الیکشن کے بعد کبھی حلقہ میں نہ دیکے جانے والے حکمران اب اسی حلقہ میں سڑکیں سولنگ نالیاں بنوا رہے ہیں تو کہیں ٹف ٹائل لگوا کر اپنے ووٹ پکے کرتے نظر آرہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ووٹ دینے والے کے لیے کم ازکم یہ شرط تو ہو کہ وہ اپنے ووٹ کی اہمیت سے واقف ہو ورنہ بقول منوں بھائی۔۔۔کی ہویا اے کی ہووے گا ۔اساں کوئی تہانوں ووٹاں پائیاں اساں کوئی آپے مہراں لائیاں
اسیں مہراں تھلے اگے سکے گھاہ دے تیلے ۔اساں کوئی ووٹر نہ سپورٹر
پنڈ میاں دا ووٹ میاں دے دیس میاں دا لوگ میاں دے تے کی ہونا اے کی ہووے گا
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو والسلام

Manzoor Ahmad Faridi

Manzoor Ahmad Faridi

تحریر : منظور احمد فریدی