وطن عزیز کے باسی ان دنوں عجیب کشمکش کا شکار ہیں۔ گو مگو کی کیفیت واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے ایک طرف سیلاب اور بارشوں نے انکو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور دوسری طرف اس نظام کے خلاف کھڑے ہونے والے خواتین و حضرات ہیں جس نے حکومت اور اس نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا ہے وہ نظام جو آج تک انکو اپنا نہیں لگا ۔ وہ نظام جس میں انکو بہت سے وعدے اور لارے دیے جاتے ہیں مگر نتیجہ ندارد، ایک ایسا نظام جس میں دولت کی تقسیم نہایت ہی غیر منصفانہ ہے ، کروڑوں بچے سکولوں میں جانے سے قاصر ہیں ، آدھی سے زیادہ آبادی کو پینے کا صاف پانی اور صحت کی سہولیات میسر نہیں ہیں ، بے روزگاروں کی فوج ظفر موج سامنے ہے ، رہی سہی کسر مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی نے پوری کر دی ہوئی ہے۔
حکومتیں جب بھی آتی ہیں انکو ہمیشہ یہی چیز کھٹکتی رہتی ہے کہ پتہ نہیں ہم اپنی مدت پوری کریں گے بھی یا نہیں ، ان حکومتوں کو ہر طرف سے سازشوں کی بو آتی رہتی ہے ، وہ ادارے جو طاقتور ہیں وہ اپنی طاقت انکے سپرد کرنے کو تیار نہیں ہوتے ان اداروں کے ایسا نہ کرنے کے دلائل پر توجہ دی جائے تو انکے دلائل میں زیادہ وزن محسوس ہوتا ہے، عدالتیں ایک عام آدمی کو انصاف دینے میں کامیاب نہیں رہیں اسکی وجہ ایک عام آدمی کا قانونی پیچیدگیوں سے ہم آہنگ نہ ہونا اور طاقتور کے لیئے یہ ساری پیچدگیاں حل کرنے کے لیئے بڑی بڑی فیسوں کے عوض کام کرنے والے وکلاء کی خدمات، اب ہم جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیوں یہ نظام اب تک کچھ بھی ڈلیور نہیں کر سکا۔
کسی بھی نظام کی کامیابی کے لیئے ضروری ہے کہ اسکے بنانے اور چلانے والے کتنے اہم اور بہترین لوگ ہیں، وہ کس حد تک اسکی کمزوریوں اور خامیوں سے آشنا ہیں ، بدلتے ہوئے بین الاقوامی حالات میں اپنے آپکو ہم آہنگ کرنے کی صلاحیت ان میں کس حد تک موجود ہے ، اپنے وسائل اور طاقت کے استعمال کا انکو ہنر آتا بھی ہے یا نہیں۔ بدقسمتی سے اگر ہم اپنے نظام کو چلانے والے لوگوں کی طرف دیکھیں تو ہمیں ان تمام صلاحیتوں کا فقدان نظر آتا ہے باوجود اسکے کہ اسی نظام میں بہت سارے قابل، دیانتدار اور اہل ترین لوگ موجو ہیں لیکن وہ اس نظام سے ناخوش ہیں میری ناقص رائے میں ہمارے تمام مسائل اس فرسودہ انتخابی نظام کی بدولت ہیں جب تک ہم اہل، قابل، دیانتدار اور کام کرنے والے لوگ پارلیمنٹ میں نہیں بھیجیں گے تب تک ہمارے مسائل بڑھتے ہی چلے جائیں گے اور وسائل کا بے دریغ استعمال ہوتا ہی رہیگا۔
ہم جائزہ لیتے ہیں کہ کیوں ہماری سیاسی جماعتیں بہترین لوگ اسمبلیوں میں نہیں بھیج پاتیں ، سالہا سال سے چند خاندان ہی کیوں اسمبلیوں میں موجود ہیں، اسکی سب سے بڑی وجہ انتخابات میں ہونے والے حد سے بہت ہی زیادہ ایک امیدوار کے اخراجات ہیں، قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں تقریباّ ساڑھے تین لاکھ ووٹرز ہوتے ہیں اب ایک امیدوار کو جیتنے کے لیئے تقریباّ ڈیڑھ سے دو لاکھ ووٹرز تک پہنچنا ہوتا ہے شہروں میں تو یہ کام آسانی سے ہو سکتا ہے مگر ہمارے دیہات کے حلقوں میں یہ کام بہت مشکل ہے، دوسری وجہ ہماری برادریوں کی سیاست ہے ہم آج تک برادریوں کی سیاست سے باہر نہیں نکل سکے برادری کے نام پر ہم گدھے کو ووٹ دے دیتے ہیں مگر دوسری طرف ریس میں بھاگنے والا بہترین گھوڑا صرف اس وجہ سے ہار جاتاہے کہ وہ مخالف برادری کا ہوتا ہے، ہماری تیسری بڑی وجہ عوام کے اندر بٹھایا گیا وہ خوف ہے۔
Political Parties
جو طاقتور نے ڈال دیا ہے یہ انتخابات میں زبردستی ووٹ بھی ڈلواتے ہیں اور جہاں تک ایک عام آدمی کا ووٹ چرا سکیں چراتے ہیں اور ہمارے وہ لوگ جو قابل اور ایماندار ہیں منظم نہ ہونے کی وجہ سے نہیںاسکا سدباب نہیں کر پاتے ۔ سیاسی جماعتوں کے اندر چونکہ جمہوریت نہیں ہے اس لیئے یہ اپنی جماعتوں کے اندر بہترین لوگ آگے لانے میں ناکام ہیں ۔ جسکی وجہ سے یہ جاگیردار اور بڑی برادریاں رکھنے والے لوگوں کی خدمات لینے پر مجبور ہو جاتی ہیں ، جب یہ لوگ اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں تو عوام کے پیسوں سے چلنے والے تمام اداروں کو یہ اپنے قابو میں کر لیتے ہیں اور تمام پیسہ اپنی مرضی سے لگاتے ہیں کرپشن اور بدعنوانی خود بھی کرتے ہیں۔
اپنے ساتھ چند اور لوگوں کو بھی کرواتے ہیں جس سے یہ اور مضبوط ہو جاتے ہیں اور اگلے انتخابات میں ان تمام اداروں کی طاقت کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں مخالف امیدوار کسی صورت بھی انکا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا ، بلدیاتی انتخابات اگر متواتر ہوتے رہیں تو شاید انکا مقابلہ کرنے والا کوئی نہ کوئی قابل آدمی آجائے کیونکہ انکی سیاست گلی اور نالے پکی کروانے کی ہوتی ہے جو کہ ایک کونسلر کا کام ہے مگر ان اسمبلی ممبران نے اپنے ہاتھ میں لیا ہوتا ہے جسکی وجہ سے لوگ انکی قانون سازی میں حصہ نہ لینے کی ذمہ داری کو بھول جاتے ہیں۔
یہ دوبارہ انتخاب جیت جاتے ہیں اوربدلتے ہوئے زمانے کے مسائل کے مطابق قانون سازی نہیں کی جاسکتی ایک خلاء پیدا ہوتا ہے جسکی وجہ سے ایک جمہوری حکومت اپنی مدت پوری نہیں کر پاتی اور مارشل لاء کا راستہ نکل آتا ہے فوجی حکمران آجاتے ہیں وہ بھی ان طاقتور لوگوں کا سہارا لیتے ہیں تھوڑی سی ترقی نظر آتی ہے مگر بنیادی مسائل جوں کے توں ہی رہنے کی وجہ سے لوگ بہت جلد ان حکمرانوں سے بھی تنگ آجاتے ہیں پھر سیاسی جماعتیں انہی لوگوں کو ساتھ لے کر اقتدار میں آجاتی ہیں جنکی وجہ سے وہ گئی ہوتی ہیں۔
میرے خیال میں جب تک حلقہ کی سیاست اس ملک میں رائج رہے گی تب تک یہی لوگ اقتدار میں آتے رہیں گے ، جنازوں کی اور گلیاں پکی کروانے کیس سیاست جیتے گی اور بنیادی مسائل کے حل کی جانب بڑھنے والی اور قانون سازی کرنے والی سیاست ہارتی رہے گی نتیجہ عوام کی ہار پر منتج ہوگا اور ایک ڈیڈ لاک پیدا ہوگا جو کہ ابھی اسلام آباد میں پیدا ہو چکاہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حلقہ کی سیاست کے متبادل کونسا نظام ہے ؟ اس سوال ک کے جواب ایک خاکہ خاک نشین نے تیار کیا ہے جو کہ آپکی خدمت میں انشا اللہ اپنے اگلے کالم میں پیش کروں گا۔
Zahid Mehmood
تحریر: زاہد محمود zahidmuskurahat1122@gmail.com 03329515963