ایک طرف ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ پاکستان کی آنے والی کئی نسلیں لاکھوں روپے کی مقروض ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں پیداہونے والے تمام بچے مقروض پیداہو رہے ہیں۔ ٧٥ ارب روپے کے قرضے تو معاف کرائے گئے ہیںاورجوقرضہ معاف نہیں کرایا گیا اس کوبھی معاف کرائے گئے قرضہ میں شامل کر لیا جائے تو ملکی معیشت کی زبوں حالی وجہ سامنے آ جاتی ہے۔ ملک میں صاف پانی کی عدم دستیابی اورخوراک کی قلت کی رپورٹ پڑھی جائیں تواوسان خطا ہو جاتے ہیں۔کتنے خاندان ہیں جوچھت سے محروم ہیں۔دوسری طرف انتخابات میں حصہ لینے والے سیاسی لیڈروں اورعوامی نمائندوں کے اثاثوں کی تفصیلات پڑھی جائیں تودماغ چکرانے لگتا ہے اوریہ احساس بھی پیداہونے لگتا ہے کہ پاکستان پرقرضوںکابوجھ کیوں ہے۔ کروڑوں روپے کی مالیت کے اثاثوں کے حامل یہ سیاست دان اگراپنے اپنے حلقوں کے بے سہارا، بے روزگاراورچھت و خوراک سے محروم گھرانوں اورافرادکی محرومیاں ختم کردیں توملک سے ان مسائل کوحل کرنے میںمددمل سکتی ہے۔
کاغذات نامزدگی کے ساتھ منسلک اثاثہ جات کی تفصیلات کے مطابق آصف علی زرداری چھ بلٹ پروف لگژری گاڑیوں ،دبئی میں ہزاروںایکڑپرمشتمل پراپرٹی اورزرعی اراضی کے مالک ہیں۔آصف علی زرداری کواسلحہ، گھوڑے اورلائیوسٹاک کاشوق ہے۔جس پرانہوںنے خطیررقم خرچ کی ہے۔میڈیارپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کوفراہم کردہ تفصیلات کی روسے آصف علی زرداری کے پاس متحدہ عرب امارات کااقامہ بھی ہے ۔ اور پاکستان میں ایک درجن سے زائدپراپرٹیزکے مالک ہیں۔جب کہ بے نظیربھٹوکی پانچ پراپرٹیزمیں شیئربھی ہیں۔ظاہرکردہ اثاثہ جات میںبتایاگیا کہ آصف زرداری بیرون ملک دبئی میں الصفامیں ایک خالی پلاٹ کے مالک ہیںجودس کروڑ روپے میں خریداگیاتھا۔آصف علی زرداری کے اثاثوںکی کل مالیت ٧٥ کروڑ ٨٦ لاکھ روپے بنتی ہے۔جس میں آدھی جائیدادکے مالک ان کے بیٹے بلاول بھٹوزرداری ہیں۔پی پی پی کے شریک چیئرمین کے پاس تین ٹیوٹا لینڈکروزر، دوبی ایم ڈبلیواورایک ٹیوٹالیکسس ہے۔تمام مذکورہ گاڑیاں بلٹ پروف ہیں۔اثاثہ جات کی تفصیلات کے مطابق لاتعدادگھوڑوں اورکیٹل کی مالیت ٩ کروڑ روپے جب کہ ان کے پاس موجوداسلحہ کی قیمت ایک کروڑساٹھ لاکھ روپے بتائی گئی۔آصف علی زرداری کے مطابق انہوںنے ایک کروڑ انتیس لاکھ روپے کی سرمایہ کاری لینڈمارکس میںکی ہے۔جب کہ آٹھ لاکھ نوے ہزارروپے کی سرمایہ کاری آصف اپارٹمنٹ میں کی ہے۔انہوںنے کاغذات نامزدگی میںبتایا کہ وہ پاکستان سے باہرکسی کاروبارکے مالک نہیں ہیں۔
سابق صدرکے مطابق زرداری گروپ (پرائیویٹ لمیٹڈ اورپارک لین ای اسٹیٹ پرائیویٹ لمیٹڈ) صرف دس لاکھ سات ہزارروپے کی سرمایہ کاری کی ہے ۔جب کہ زرداری گروپ کوپینتالیس لاکھ روپے ادھاردیئے ہیں۔اس حوالے سے مزیدبتایاگیا کہ ان کے پاس بیس کروڑ نوے لاکھ روپے نقدی موجود ہیں ۔ جب کہ سلک بینک میں آٹھ کروڑ ستانوے لاکھ روپے اورسندھ بینک لاڑکانہ برانچ میں ایک ہزارروپے جمع ہیں ۔ آصف علی زرداری کے پاس کلفٹن میں دو پراپرٹیز ہیں جس کی مالیت گیارہ کروڑ پندرہ لاکھ روپے بتائی گئی۔جب کہ ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی کراچی میں دو ہزار گز کا بنگلہ آٹھ لاکھ پچاس ہزارروپے میں خریدا گیا اورنواب شاہ میں ایک گھرہے جس کی قیمت دوکروڑپچیس لاکھ روپے ہے۔نواب شاہ ،لاڑکانہ ،ٹنڈوالہیارمیں زرعی زمین کے مالک ہیںجب کہ نواب شاہ ، ماتلی ،بدین ،ٹنڈوالہیارمیںمجموعی طورپرتقریباًسات ہزارچارسوایکڑاراضی لیزپرحاصل کی گئی ہے۔اپنے والدکی طرح پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری بھی ارب پتی ہیں۔جن کی پاکستان اوربیرون ملک درجن بھرپراپرٹیزہیںاوردبئی اوربرطانیہ میں سرمایہ کاری کی گئی ہے۔بلاول بھٹوزرداری کی جانب سے فراہم کردہ اثاثہ جات کی تفصیلات میںبتایاگیا کہ ان کے پاس پانچ کروڑ روپے نقدموجودہیںجب کہ بینک اکائونٹ میں ایک کروڑ٣٨لاکھ روپے جمع ہیں۔تاہم ان کے پاس کوئی گاڑی نہیں۔ میڈیارپورٹ کے مطابق بلاول بھٹوزرداری کے پاس متحدہ عرب امارات کے دواقامے موجودہیں جب کہ کلفٹن کراچی میںبلاول ہائوس کی ملکیت تیس لاکھ روپے بتائی گئی۔
ان کے پاس دبئی میںولازہیں جوایک انہیںبطورتحفہ ملاجب کہ ایک کے مالک ہیں۔اثاثہ جات کی تفصیلات میں بتایا گیا کہ بلاول بھٹوزرداری کے پاس ملک بھرمیں مجموعی طورپربیس، رہائشی، کمرشل اورزرعی پراپرٹیزہیں، جوب یشتران کے والدین، دادااوردیگرکی جانب سے تحفے میں دی گئی ہیں۔اس کے علاوہ بلاول بھٹوزرداری کے پاس ان کی والدہ کی طرف سے تفویض کردہ بارہ لاکھ روپے کے بانڈزہیں جب کہ زرداری گروپ اور پارک لین ای اسٹیٹ میں گیارہ لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔دبئی میںبائیس اوربرطانیہ میں ایک سرمایہ کاری کی گئی۔جوزیادہ تران کی والدہ نے تحفے میں دی ۔ان کے پاس تیس لاکھ روپے مالیت کااسلحہ جب کہ فرنیچراوردیگرروزمرہ کے استعمال کی چیزوںکی مالیت تیس لاکھ روپے بتائی گئی ہے۔مریم نوازنے جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی میں ظاہرکیا ہے کہ وہ پندرہ سوچھ کنال ایک مرلہ زرعی زمین کی مالک ہیں۔جس میںگزشتہ تین برسوںکے دوران پانچ سواڑتالیس کنال کااضافہ ہوا۔جب کہ مختلف کمپنیوںمیںمریم نوازکے شیئربھی ہیں۔دستاویزات کے مطابق مریم نوازچوہدری شوگرملز، حدیبیہ پیپرملز،حدیبیہ انجینئرنگ لمیٹڈ، حمزہ اسپنگ ملزاورمحمدبخش ٹیکسٹائل ملزمیں شیئرہولڈرہیں۔دستاویزات میںبتایاگیا کہ مریم نوازنے فیملی کی زیرتعمیرفلوملزمیں ٣٤لاکھ ٦٢ ہزارروپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
انہوں نے سوفٹ انرجی پرائیویٹ لمیٹڈکوسترلاکھ روپے قرض بھی دے رکھاہے۔دستاویزات کے مطابق مریم نوازکے پاس ساڑھے سترہ لاکھ روپے کے زیورات ہیں اورانہیں چارکروڑ بیانوے لاکھ ستترہزارروپے کے تحائف بھی ملے۔کاغذات نامزدگی فارم میںمریم نوازنے اپنے ھھائی حسن نواز کی دوکروڑنواسی لاکھ روپے کی مقروض ہونے کابھی بتایا ہے۔دستاویزات کے مطابق مریم نوازنے تین برسوںکے دوران ٦٤لاکھ روپے سے غیرملکی دورے بھی کیے۔میڈیارپورٹس کے مطابق عمران خان نے کاغذات نامزدگی میں ذرائع آمدن، زراعت ، تنخواہ اوربینک منافع ظاہرکیا ہے ۔ دستاویزات کے مطابق عمران خان ١٦٨ایکڑزرعی زمین کے مالک ہیں۔جب کہ عمران خان نے غیرملکی دوروںکی تفصیل بھی کاغذات نامزدگی میںظاہرکی ہے ۔ شہبازشریف نے کاغذات نامزدگی میں اپنے اثاثوںکی مالیت پندرہ کروڑایک بیوی نصرت شہبازکے اثاثوںکی مالیت بائیس کروڑروپے ظاہرکی۔جب کہ شہبازشریف کے بینک اکائونٹس میںمجموعی طورپرایک کروڑ چودہ لاکھ روپے موجودہیں۔دستاویزات کے مطابق شہبازشریف نے مری ہال روڈپرایک کنال نو مرلے کے گھرکی قیمت ٣٤ ہزاراسی مقام پرایک بنگلہ نمبر٥٤سی کی قیمت ستائیس ہزارروپے ظاہرکی ہے۔انہوںنے شیخوپورہ میں اٹھاسی کنال زمین والدہ جب کہ لاہورمیں پانچ سو٦٨ کنال پرالگ الگ جائیدادیں والدہ کی طرف سے تحفہ ظاہرکی ہیں۔دستاویزات کے مطابق شہبازشریف نے لندن میں تین الگ الگ جائیدادوںکی مجموعی قیمت بارہ کروڑ اکسٹھ لاکھ روپے ظاہرکی۔اسی کے ساتھ انہوںنے حدیبیہ انجینئرنگ ملز، حمزہ سپننگ ملزاورحدیبیہ پیپرملزمیں شیئرزبھی ظاہر کیے۔ شہبازشریف نے کاغذات نامزدگی میں دوبیویاں نصرت شہبازاورتہمینہ درانی ظاہرکی ہیں۔دستاویزات کے مطابق نصرت شہبازاپنے شوہرسے زیادہ امیر ہیں۔جن کے اثاثوںکی مالیت اسی تحریرمیں پہلے لکھی جاچکی ہے۔ مزیدتفصیل یوں ہے کہ نصرت شہبازکے ماڈل ٹائون میں دس کنال کے گھرکی مالیت بارہ کروڑ ستاسی لاکھ روپے جب کہ مری ڈونگاگلی میں سوانوکنال کے نشاط لاج کی مالیت پانچ کروڑ٧٨لاکھ روپے ہے۔
نصرت شہباز قصور میں آٹھ سونوکنال اراضی پر مشتمل ٩ جائیدادوںکے شیئرزکی مالک ہونے کے ساتھ ساتھ قصورمیں ان کی جائیدادوںکی مالیت چھبیس لاکھ روپے ظاہرکی گئی ہے۔شہبازشریف نے نصرت شہبازکے مختلف کمپنیوںمیں ستاسی لاکھ روپے کے شیئرز،سترہ لاکھ روپے کی جیولری اورپانچ مختلف بینکوںمیں اکائونٹس میں ایک کروڑ نواسی لاکھ کابیلنس ظاہر کیا ۔ ان کی دوسری اہلیہ تہمینہ درانی کے پہلی بیوی کے مقابلے میںکم اثاثے ہیں۔جن کی مجموعی مالیت ستاون لاکھ روپے بتائی گئی ۔دستاویزات کے مطابق تہمینہ درانی کے نام ڈی ایچ اے لاہورمیں دس مرلے کاگھرہے اورہری پورمیں ان کے نام چارجائیدادیں گفٹ ظاہرکی گئی ہیں۔تہمینہ درانی کے گوادرمیں چارکنال کے پلاٹ میں شیئرزاوران کاپانچ بینکوں میں مجموعی طورپرپانچ لاکھ روپے کابیلنس ہے۔اوروہ پانچ لاکھ روپے کی گاڑی کی بھی مالک ہیں۔دستاویزات کے مطابق تہمینہ درانی کے پاس پندرہ لاکھ روپے کے زیورات بھی ہیں۔حمزہ شہبازنے اپنے کاغذات نامزدگی میں ٤٣لاکھ سترہزارروپے بینک بیلنس ظاہرکیاجب کہ وہ ایک سوپچپن کنال اراضی کے مالک بھی ہیں ۔ دستاویزات کے مطابق حمزہ شہبازکے پاس سولہ لاکھ اٹھاسی ہزارروپے کے پرائزبانڈہیں اوروہ اکیس مختلف ملوںمیں شیئرز ہولڈربھی ہیں۔حمزہ شہبازکی دستاویزات میںبتایاگیا ہے کہ ان کے استعمال میںکوئی ذاتی گاڑی نہیں ۔انہوںنے دوبیویاں رابعہ اورمہرالنساء کاغذات نامزدگی میں بتائی ہیں۔خواجہ سعدرفیق نے کاغذات نامزدگی میں اثاثوںکی کل مالیت سترہ کروڑ چوراسی لاکھ روپے ظاہرکی ہے۔جب کہ انہوںنے لوہاری میں دووراثتی گھروں کی مالیت ایک لاکھ پچیس ہزارظاہرکی ہے۔دستاویزکے مطابق خواجہ سعدرفیق نے اپنے کزن سے دوکروڑچھیانوے لاکھ روپے قرض بھی لے رکھا ہے۔
جب کہ انہوںنے ڈی ایچے فیز ٹو میں گھرکی مالیت چارکروڑبیاسی لاکھ موضع پھلروان میں سولہ کنال اراضی کی مالیت دوکروڑاٹھانوے لاکھ کے علاوہ ایک کروڑ نوے لاکھ روپے نقد اور پرائز بانڈ ظاہر کیے۔سعدرفیق نے ایک کروڑپندرہ لاکھ روپے کے شیئرزبھی ظاہرکیے۔فاروق ستارمقروض نکلے ان کاذریعہ آمدنی صرف اسمبلی کی تنخواہ ہے۔ان کے نام پرکوئی گھر، فلیٹ یابنگلہ نہیں نہ ہی ان کاکوئی کاروبارہے نہ کہیںکوئی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ان کی بیگم کے نام پرایک فلیٹ ہے جس کی قیمت صرف آٹھ لاکھ روپے ہے۔وہ دوبیگمات اوردوبیٹیوںکے واحدکفیل ہیں۔ان کے پاس نقدی آٹھ ہزارروپے اوربہن کے مقروض بھی ہیں ۔شرجیل انعام میمن کروڑوںکے مالک نکلے ہیں۔شرجیل میمن دبئی میں پانچ کروڑروپے کے فلیٹ کے مالک ہیں۔دبئی میں ہی ٩ کروڑ نواسی لاکھ روپے کافلیٹ ان کی اہلیہ کے نام پربھی ہے۔وہ ڈی ایچ اے کراچی میں چوالیس لاکھ روپے مالیت کے بنگلے کے مالک ہیں۔انہوںنے ڈی ایچ اے اٹھائیس سٹریٹ پر ستانوے لاکھ روپے کی جائیدادبھی ظاہر کی ہے۔وہ تھرپارکرمیںایک کروڑپچاس لاکھ پچاس ہزارروپے مالیت کی جائیدادکے مالک اورانٹرنیشنل گلف گروپ میں ان کی اہلیہ تیس لاکھ روپے کی شراکت دارہیں۔شرجیل میمن کی اہلیہ کے اکائونٹس میں دوکروڑانتیس لاکھ اناسی ہزارروپے جب کہ فرنیچرکی مدمیں پچیس لاکھ روپے ظاہرکیے۔وہ تین کروڑپچانوے لاکھ سترہزارکی تین گاڑیوںکے مالک ہیں۔انہوںنے آٹھ کروڑسات لاکھ اکانوے ہزارتین سونواسی روپے نقدی اور پرائزبانڈ بھی ظاہرکیے۔سال دوہزارسولہ تک زریعہ آمدن سے محروم جاویدہاشمی نے کروڑوں کے اثاثے ظاہرکردیئے ٤٣٤ کنال زرعی اراضی، دوکنال پرگھرسوتولہ سونا، پانچ پانچ لاکھ کے فرنیچراورزرعی آلات ،تین بینک اکائونٹس میں بیس لاکھ انتالیس روپے ،لینڈکروزرسمیت تین گاڑیاں ،زرعی شعبہ میں پچیس لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کاغذات نامزدگی میں ظاہرکی گئی ہے۔شاہ محمودقریشی نے اثاثوںکی مالیت اٹھائیس کروڑچھتیس لاکھ ٦٧ ہزارروپے ظاہرکیے ہیں ،یوسف رضاگیلانی پانچ کروڑ چوالیس لاکھ کی پراپرٹی ،ایک کروڑگیارہ لاکھ کی نقدی ٦٨ لاکھ کاگھراورایک کروڑسترہ لاکھ کی زرعی اراضی کے مالک ہیں۔گھرسے لے کرموٹرسائیکل تک جمشیددستی کے نام کچھ بھی نہیں ہے۔چوہدری نثارکے اثاثوںکی کل مالیت چھ کروڑپچیس لاکھ روپے سے زائدہے اوران کے پاس کوئی گاڑی نہیں ہے ۔ عاصمہ عالمگیرچارارب جب کہ ان کے شوہرارباب عالگیرتین ارب ،علیم خان اکانوے کروڑکے مالک ایک ارب کے مقرض ،خورشیدشاہ تین کروڑ،فریال تالپور بتیس کروڑ،ایازصادق چارکروڑ ،کیپٹن صفدرکروڑوںکی زرعی اراضی اورمرادعلی شاہ کے اثاثے اکیس کروڑ کے ہیں۔ دوست کھوسہ کے اثاثوں کی مالیت چھبیس کروڑ ٣٥ لاکھ روپے ہے ،جمال لغاری چارہزارچارسوانیس کنال اراضی کے مالک ہیں،عبدالقادرگیلانی کے اثاثوں کی مالیت سات کروڑ پچانوے لاکھ روپے، احمدیارہزاج کے اثاثے پندرہ کروڑ٦٩ لاکھ ستانوے ہزاردوسواٹھاسی روپے کے ہیں۔ تمام امیدواروںکے اثاثوںکی تفصیل لکھی جائے تواس کے لیے ایک ہزارصفحات پرمشتمل کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے نمایاں امیدواروںکے اثاثوںکی تفصیل لکھ دی ہے۔
سراج الحق کہتے ہیں کہ بلاول ہائو س تیس لاکھ روپے کاہے توہم اسے پچاس لاکھ میںخریدنے کوتیارہیں بھتیجے کوبیس لاکھ روپے کافائدہ ہوگا۔ایک قومی اخبارمیں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سیاست دانوں نے اربوں کروڑوںروپے کے اثاثے ظاہرکرنے کے باوجوداثاثے چھپائے بھی ہیں۔ایک طرف انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے اثاثوںکی تفصیلات پڑھ کرایسے لگتا ہے کہ دنیا بھرکے امیرترین عوامی نمائندے صرف پاکستان میں ہی پائے جاتے ہیں۔برطانوی جریدے بلوم برگ نے لکھا ہے کہ پاکستان کوآئندہ مالی سال کے دوران ساڑھے ٩ارب ڈالرقرض لیناہوگا ۔ زرمبادلہ کے ذخائرتین سال کی کم ترین سطح پرآگئے ہیں۔عالمی بینک اورپاکستان میں توانائی وآبی منصوبوں کے لیے ٦٨ ارب روپے کے معاہدوںپردستخط ہوئے ہیں۔ایک خبرکے مطابق غربت کے باعث ملک بھرمیں چالیس لاکھ سے زائد بچے جبری مشقت پرمجبورہیں ۔پنجاب کوبائیس ارب روپے کے مالی خسارے کاسامناہے۔مارچ کے بعدمکمل منصوبوںکوادائیگی روک دی گئی ہے۔
ایک قومی اخبار نے ان اثاثوں کے حوالے سے یوں خبرشائع کی ہے کہ الیکشن قریب آنے پرپراپرٹی سستی ہوگئی ؟ سوشل میڈیاصارفین نے سیاست دانوںکے محل خریدنے کی پیش کش کردی ۔بلاول ہائوس تیس لاکھ کا، ماڈل ٹائون لاہورمیںبنگلے کی قیمت اڑتالیس لاکھ ،زرداری کاڈیفنس کابنگلہ ساڑھے آٹھ لاکھ کاظاہرکیاگیا۔عمران خان کاسوکنال پرمحل ایک کروڑ چودہ لاکھ ٧١ہزار،شہبازشریف کے مری میںبنگلے کی قیمت صرف ستائیس ہزارنکلی۔زرداری نے دوہزارگزپرمشتمل بنگلے کی قیمت خرید بتائی ہے موجودہ قیمت نہیں ۔ شہبازشریف کی دونوںبیویوں کے اثاثوںمیں بہت فرق ہے۔شہباز شریف کی ذمہ داری ہے کہ دونوںکے اثاثے برابر کریں ۔عمران خان نے ذریعہ آمدنی بینک منافع بھی بتایا ہے ۔ جوکہ سودہے ، سودحرام ہے۔ اگروہ اسی آمدنی سے انتخابی مہم چلارہے ہیں توقارئین خودسوچ لیں کہ اس کی حمایت کرکے آپ کس طرح کے نظام کی حمایت کررہے ہیں۔جس لیڈرکی اپنی آمدنی سودہووہ ملک کی معیشت کوکس سمت لے جائے گا یہ بات سمجھ میں آجائے تو بہت سوںکی آنکھیں کھل جائیں گی۔کراچی سے شائع ہونے والے ایک قومی اخبارکی خبرکے مطابق ایف بی آراورالیکشن کمیشن نے جائیدادوںکی قیمت کم ظاہر کرنے اثاثوں سے متعلق غلط بیان حلفی دینے اورآمدن کے ذرائع چھپانے والے امیدواروں کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔