جنرل الیکشن کے بعد ضمنی انتخابات میں بیشتر نشستوں پر موروثی سیاست کا غلبہ رہا۔ شیخ رشید کے بھتیجے شیخ راشد شفیق، چوہدری پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی، ہارون بلور کی بیوہ ثمر ہارون، اکرم درانی کے بیٹے نسیم اکرم درانی، طارق دریشک کے بیٹے اویس دریشک، علی امین گنڈاپور کے بھائی فیصل امین گنڈا پوراور اکرام اللہ گنڈا پور کے بیٹے آغاز اکرام اللہ گنڈاپور نے اپنی موروثی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ضمنی انتخابات میں خلاف روایت حکمراں جماعت متوقع کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ پی ٹی آئی کی جانب سے چھوڑی جانے والی دو نشستوں پر اپوزیشن کی کامیابی کو بظاہر کوئی اپ سیٹ نہیں سمجھا جارہا۔ حالانکہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کا عوامی نیشنل پارٹی سے کانٹے دار مقابلہ ہوا اور معمولی فرق سے پی ٹی آئی اپنی کچھ نشستیں بچانے میں کامیاب ہوئی۔ اس کے باوجود عوامی نیشنل پارٹی نے دو صوبائی نشستیں جیتیں اور پنجاب میں بھی تحریک انصاف اور (ن) لیگ کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوا اور حکمراں پارٹی دو کے علاوہ دیگر نشستوں پر بہت کم مارجن سے کامیاب ہوئی۔
اس کی توجیہات کو آنے والے بلدیاتی انتخابات سے ضرور جوڑا جارہا ہے۔ تحریک انصاف کا اہم نشستوں کو کھودینا، کئی معنوں سے اہمیت کا حامل ہے۔ عموماً یہی تاثر لیا جاتا رہا کہ برسراقتدار جماعت کو ضمنی انتخابات میں لازمی کامیابی ملتی ہے، لیکن یہاں ایسا نہیں ہوا۔ ضمنی انتخابات کا جو منظرنامہ سامنے آیا ہے۔ غیر رسمی نتائج کے اعلان کے مطابق بنوں کی نشست پر زاہد اکرم درانی نے این اے 35بنوں میں 60ہزار944 لیکر بڑے مارجن سے تحریک انصاف کے نسیم علی خان کو شکست دی۔ این اے 56سے مسلم لیگ(ن) کے ملک سہیل نے ایک لاکھ 28ہزار 499ووٹ لے کر پی ٹی آئی امیدوار ملک خرم کو بڑے مارجن سے شکست دی۔ این اے124 میں شاہد خاقان عباسی نے پی ٹی آئی امیدوار غلام محی الدین دیوان کو بھی بڑے مارجن سے ہراکر کامیابی حاصل کی۔ این اے 131 میں خواجہ سعد رفیق نے حکمراں جماعت کے امیدوار ہمایوں اختر کو واضح شکست دی۔ این اے 103 فیصل آباد سے (ن) لیگ کے علی گوہر نے تحریک انصاف کے محمد سعداللہ کو شکست دی۔
این اے 65 میں (ق) لیگ کے چوہدری سالک حسین نے ایک لاکھ 917ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ این اے 24کراچی میں تحریک انصاف کے عالمگیر خان نے متحدہ قومی موومنٹ سمیت تمام جماعتوں کے امیدواروں کو بڑے مارجن سے ہرایا۔ این اے 53میں پی ٹی آئی امیدوار علی نواز اعوان نے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار وقار احمد کو شکست دی، این اے 60میں پی ٹی آئی اور پی ایم ایل(ن) کے امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا اور حکمراں جماعت کے شیخ راشد کم مارجن سے کامیاب ہوئے۔ این اے 63 سے پی ٹی آئی کے منصور حیات (ن) لیگ کے عقیل ملک کو شکست دے کرکامیاب ہوئے۔ این اے 69 سے (ق) لیگ کے مونس الٰہی کامیاب ہوئے۔ حالانکہ تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی مجموعی طور پر زیادہ نشستیں حاصل کیں لیکن جس طرح مسلسل60 روز بعد بھی تحریک انصاف کے وزراء اپوزیشن والی سیاست کررہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلم لیگ (ن) کو عام انتخابات کی طرح ضمنی انتخابات میں بھی ’’شکست‘‘ دی جاتی اور ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ مزید واثق ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وزیراعظم کی جیتی چار نشستوں پر اپوزیشن کی کامیابی نے حکمراں جماعت کو تھوڑا بہت ’’مایوس‘‘ ضرور کیا ہوگا، کیونکہ جن نشستوں پر وزیراعظم جیت چکا ہو، اُن پر اس کے نامزد امیدواروں کا شکست سے دوچار ہونا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
یہاں کافی توجیہات پیش کی جارہی ہیں لیکن متفقہ رائے یہ بھی سامنے آئی کہ نئی حکومت کا کئی اہم معاملات پر یوٹرن لینا اور ہوش ربا مہنگائی نے عوام میں ناراضی و مایوسی میں اضافہ کیا۔ اگر تحریک انصاف و اتحادی جماعتیں آئندہ دنوں میں عوام کو معاشی ریلیف دینے میں ناکام ہوتی ہیں تو اس کا اثر براہ راست بلدیاتی انتخابات و سیاسی پوزیشن پر بھی پڑسکتا ہے۔ تاہم کراچی میں تحریک انصاف کی کامیابی دراصل اہلیان شہر کی وزیراعظم سے وابستہ توقعات کے سبب ہوئی، کیونکہ کراچی میں گزشتہ چار دہائیوں سے جس قسم کی پُرتشدد سیاست رہی ہے، شہری فوری اپنے موقف سے ہٹنے کو تیار نہیں۔
پاک سرزمین پارٹی شہریوں کے لیے بڑی تبدیلی کا نعرہ لے کر آئی تھی اور سندھ کے شہری علاقوں کے مسائل کو حل کرنے کی خاطر اجلاسوں میں بڑی تگ و دو کی۔ عموعی تاثر یہ بنایا گیا کہ ایم کیو ایم (پاکستان) کا نام و نشان ختم ہوجائے گا اور پاک سرزمین پارٹی، اُس کی جگہ لے کر عدم تشدد کی سیاست کو فروغ دے گی۔ اُس نے ابتدا سے اچھی روایات کا آغاز کیا تھا۔ علاوہ ازیں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی میں بہتر ماحول بنادیا تھا۔ متحدہ کا معاملہ جداگانہ تھا، کیونکہ مہاجر سیاست میں بانی قائد کی مخالفت و تنقید کوئی آسان بات نہ تھی۔ خصوصاً اسی جماعت کے رہنمائوں (جنہیں متحدہ کے بانی نے شناخت دی تھی) کی جانب سے یہ بڑے حوصلے کا کام تھا، مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے پہل کی اور متحدہ کے مضبوط حلقوں میں بانی متحدہ اور لندن گروپ پر کھل کر تنقید کی۔ ماضی میں جب ایم کیو ایم تین دھڑوں میں تقسیم کی گئی تھی تو تشدد کی تشویش ناک لہر بھی پیدا ہوئی تھی اور ان دھڑوں کے درمیان تشدد اور خانہ جنگی کا سماں رہتا تھا۔ علاقوں پر قبضے اور منحرف کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ عروج پر تھی۔ سیکڑوں کارکنان باہمی چپقلش کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ لاشوں پر سیاست کا نیا انداز شروع ہوا جو آہستہ آہستہ شہر کی دو مزید سیاسی جماعتوں میں سرایت کرگیا اور کراچی کرچی کرچی ہوگیا۔
پاک سرزمین پارٹی تمام تر تحفظات کے باوجود کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ ایم کیو ایم (پاکستان) اختلافات سے باہر نہ نکل سکی۔ ڈاکٹر فاروق ستار کا ضمنی انتخابات سے قبل ایک بار پھر جداگانہ گروپ بنانے کا اعلان اور متحدہ (پاکستان) کے رہنمائوں پر تنقید نے پارٹی ووٹ بینک کو دوبارہ کنفیوژ کیا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی دونوں صوبائی نشستوں پر کامیاب ہوئی۔ اب عارف علوی کے ملکی صدر بننے کے بعد خالی ہونے والی نشست این اے 247 اور پی ایس 111 پر کراچی میں دوبارہ دنگل ہوگا۔ اس نشست پر ڈاکٹر فاروق ستار پی ٹی آئی سے شکست کھاچکے ہیں۔ ممکن ہے کہ حکمراں جماعت اپنی اس نشست کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوجائے، کیونکہ شہر میں سیاسی خلا کو پُر کرنے میں اب بھی سیاسی جماعتوں کو خاصا وقت لگے گا۔ پاک سرزمین پارٹی مستقبل میں بلدیاتی سطح پر کچھ کامیابی حاصل کرسکتی ہے، کیونکہ اس کا بنیادی ڈھانچہ بہرحال متحرک ہے۔ ایم کیو ایم (پاکستان) کے اختلافات کا فائدہ بلدیاتی انتخابات میں دیگر جماعتوں کو دوبارہ ہوسکتا ہے، تاہم کراچی کے سیاسی خلا کو پُر کرنے کے لیے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ شہریوں کے احساس محرومی کا مداوا صرف بیانات سے ممکن نہیں۔ کراچی کے لیے پورے پاکستان کو عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔