ایک وقت آئے گا جب بے رحم تاریخ اپنا فیصلہ تحریر کرے گی تو حکمران، سیاستدان وڈیرے، جاگیر دار ،ب یوروکریسی، اشرافیہ سب کے سب قومی مجرم گردانے جائیں گے عوام سے بھی گلہ ہے جو حقیقت میں ذہنی طورپر غلام بنے ہوئے ہیں بہتر امیدوار کو ووٹ ہی دینا پسند نہیں کرتے۔ اظہار یا انکار دونوں صورتوں سوچ پر تو پہرے نہیں لگائے جا سکتے محرومیوں کے مارے عام پاکستانی کا دل دکھی ہے جناب یہ کون سی جمہوریت ہے ؟ کیسے جمہوری تقاضے؟دل نہیں مانتا ،ذہن تسلیم نہیں کرتا کہ سارے وسائل میں عام آدمی کیلئے کچھ بھی نہیں۔۔ لگتاہے موجودہ قومی رہنمائوں میں سے کوئی بھی دل سے موجودہ سسٹم کو تبدیل کرنا نہیں چاہتا سب کی خواہش ہے
یہ موج میلہ ایسے ہی ہوتا رہے اب عوام اس نتیجہ پر پہنچی ہے انہیں ایسی جمہوریت۔۔ ایسا نظام ۔۔ ایسے لیڈر نہیں چاہییں جنہوں نے غربت کو عوام کیلئے بد نصیبی بنا کررکھ دیا اب لوگوں میں یہ بات عام ہوتی جارہی ہے انتخابات کا مروجہ طریقہ ٔ کاردرست نہیں اس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں جب تک موجود ہ استحصالی نظام موجود ہے بہتری کی کوئی امید نہیں ۔یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان کے سب کے سب حکمران اور موجودہ سیاستدانوں میں بیشتر فوجی اسٹیلشمنٹ کی پیداوار جن کی خواہشات کا نام جمہوریت۔ سیاست جن کیلئے کھیل اور جمہوریت عوام کیلئے سانپ سیڑھی والی گیم جب منزل قریب آنے لگتی ہے سانپ ڈس لیتاہے دھت تیرے کی۔
جمہوریت تو پاکستان میں بادشاہت ہوگئی یا پھر، ملوکیت کی بدترین شکل دونوں صورتوں میں عوام کا پٹرا اور اشرافیہ کی پانچوں گھی میں۔ایک طرف ہمارا یہ حال ہماری حکومتیں قرض لے کر بھی اترتی پھرتی ہیں۔۔۔اکثر و بیشتر صدر اور وزیراعظم غیر ملکی دوروں میں مصروف رہتے ہیں شاید انہوں نے حالات سے” فرار ”کا یہ اچھا طریقہ نکالاہے ایک بات فہم و ادرراک سے بالا ترہے ہمارے صدر یا وزیراعظم جب غیر ملکی دوروں پر جاتے ہیں وہاں کے حالات، عوام کو میسر سہولیات دیکھ کر بھی ان کے دل میں کوئی تڑپ پیدانہیں ہوتی کہ وہ اپنے عوام کیلئے بھی کچھ کریں۔
عمران خان، طاہرالقادری ،شیخ رشید، چوہدری برادران سمیت ایک لمبی فہرست ہے جو موجودہ حکومت کی مشکیں کسنے کے متمنی ہیں ان میں”کچھ”لوگ میاں نواز شریف کو ڈرانے میں کامیاب نہیں ہو سکے لیکن میاں صاحب کے سب ساتھیوںکے حواس پر شاید عمران خان اور طاہرالقادری چھا گئے ہیں شاید” انقلاب فوبیا” اسی کو کہتے ہیں اٹھتے، بیٹھتے، سوتے جاگتے ان کے منہ انقلاب کی گردان کرتے رہتے ہیں وارنٹ گرفتاری اور اشتہاری قرار دینے کے باوجود میاں نواز شریف کے لوگوں نے انہیں سمجھایا کہ عمران خان اور طاہرالقادری کو گرفتار کرنے کی حماقت نہ کی جائے یہ اقدام حکومت کے تابوت میں آخری کیل بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
Pakistan
پاکستان جیسے ممالک جہاں ادارے کمزور اور شخصیات طاقتور ہیں یہاںکسی بھی وقت ان ہونی ہو سکتی ہے ہمارا کوئی حکمران آج تک اس خوف سے باہر نہیں نکلایہی وجہ ہے کہ موجودہ آرمی چیف اور ان کے پیش رو قوم کو یقین ہی دلاتے رہتے ہیں کہ جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں لیکن بیشتر لوگوں کا دل ہے کہ مانتا ہی نہیں اسی لئے جب حکومت کے خلاف احتجاج کی کوئی دھانسو تحریک چلانے کا اعلان ہوتاہے وسوسے ہیں کہ امڈتے چلے آتے ہیں ان سے جان ہی نہیں چھوٹتی ہر پاکستانی کے دل میں خیال ضرور آتاہے اس کے پیچھے یقینا فوج ہے جو وزیرِ اعظم کو فری ہینڈ نہیں دینا چاہتی ملک میں ایسے سیاستدانوں کی افراط ہے جو کسی بھی واقعہ ۔۔۔کسی بھی سانحہ پر ایڑیاں اٹھا اٹھا کردیکھتے ہیں
فوج اب آئی کہ اب آئی پچھلے کئی سالوں سے ان کے من کی مراد بر نہیں آئی لیکن انہوں نے بھی امید کا دامن آج تک نہیں چھوڑا ۔۔اس کو کہتے ہیں استقامت۔۔۔آخر امیدپر دنیا قائم ہے۔۔14اگست سے اسلام آباد میں دھرنوں، شیلنگ، آنسو گیس ہلاکتوں اور سینکڑوں زخمی ہونے کے باوجود اب تلک فوج نے جمہوریت کا ساتھ دیاہے حالانکہ طاہرالقادری اور عمران خان چیختے پھر رہے ہیں یہ جمہوریت نہیں لیکن غلیل والے بھی کہہ رہے ہیںیہ آپ کے سیاسی معاملات ہیں انہیں خودہی حل کرو۔۔ 30 نومبر کو اسلام آبادمیں کیاہوگا کوئی نہیں جانتا لیکن لوگ کہہ رہے ہیں کہ پر تشدد واقعات کا بھی اندیشہ ہے
عمران خان پر موقوف نہیں شیخ الاسلام نے بھی20نومبرکو وطن واپسی کااعلان کردیا ہے میاں نواز شریف کواس بات کا شایداندازہ نہیں اس مرتبہ شیخ الاسلام کشتیاں جلاکر وطن واپس آئے ہیں ان کے پاس فدائیوںکی کثیر تعداد بھی موجودہے اور سب سے بڑھ کروہ کینیڈا کی شہریت سے دستبردار ہونے کااعلان بھی کر سکتے ہیں۔۔ طاہرالقادری ملک بھر میں بیک وقت احتجاجی تحریک چلانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں تحریکِ منہاج القرآن کے 14 کارکنوں کی ہلاکت کے باعث عوام کی ہمدردیاں بھی ان کے دامن میں ہیں عمران خان بھی ایک زبردست سیاسی و عوامی قوت بن کر ابھر چکے ہیں اس لئے اب Now ar Never کیفیت پیداہوگئی ہے یہ تو مشہور کہاوت ہے کہ سیاست بڑی بے رحم ہوتی ہے اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا اس لئے حکومت کو ہمارا مفت مشورہ ہے
انتہائی سوچ سمجھ کر فیصلے کریں وہ اقتدار میں ہیں ان کی ذمہ داری بھی زیادہ ہے آج پاکستان کی ایک نئی تاریخ لکھی جارہی ہے میاں نوازشریف کے ساتھی انہیں خوش کرنے کیلئے مظہرشاہ کے اندازمیں بڑھکیں نہ ماریں مسائل کا زمینی حقائق کے مطابق حل تجویز کریں اسی میں موجودہ سسٹم کی بقاء ہے۔سیاست میں مخالف کوبرداشت کرنا جمہوریت کا حسن کہلاتاہے طاہر القادری ، عمران خان اور شیخ رشید سب پاکستانی ہیں سب کے سب محب ِ وطن۔۔ سیاست سب کا حق ہے اختلاف کو برداشت کریں اب کے بار حالات ماضی سے بہت مختلف ہو سکتے ہیں ضروری نہیں میاں نواز شریف اور ان کے وزیر مشیر جو سوچ رہے ہیں
اسی انداز میں حالات ظہورپذیرہوں یا عمران خان، طاہرالقادری ،شیخ رشید یاچوہدری برادران جو امید لگائے بیٹھے ہیں ویسا ہی ہو جائے ۔۔۔اب تلک جو بھی ہوا غور کریں تو محسوس ہوگا حکومت کے خلاف دھرنے ناکام ہوگئے ہیں۔۔میاں نوازشریف کی حکومت نے بحران پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کی اور اس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوگئی لیکن 18-17 روز سے پر امن مظاہرین پر ہزاروں آنسو گیس کی شیلنگ، ربڑکی گولیوںکا بے رحمانہ استعمال، لاٹھی چارج ،ہلاکتوں اور بڑی تعداد میں لوگوںکا زخمی ہونا ۔۔۔ میڈیا کارکنوںپر بہیمانہ ظلم اس انداز سے کیا گیا
جیسے وہ دشمن ملک کے شہری ہوں ایسے واقعات نے حکومت کا وقار مجروح کرکے رکھ دیاہے لیکن حیرت ہے میاں نوازشریف جیسے نستعلیق وزیر اعظم نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں پولیس کے اس کردارکو خراج ِ تحسین پیش کیاتھا۔۔۔ 30 نومبر کو اسلام آباد میں جمہوریت اور پاکستان کی بقاء کیلئے ایسے واقعات کو روکنا ہو گا حکومت کو اپنے رویہ میں لچک پیدا کرنی ہوگی پولیس یا مظاہرین میں سے خون جس کا بھی بہے وہ میرے ہم وطن کا لہو ہے۔
سب کے خون کا رنگ ایک جیسا ہوتا ہے تاریخ بتاتی ہے لہو بولتاہے آج نہیں تو کل۔۔۔ خراج تحسین پیش کرنے والوں کو غور کرنا ہوگا ایک دن ایسا ضرور آتا ہے جب بے گناہوں کا لہو اپنا خراج مانگتا ہے۔۔۔حساب مانگتا ہے۔۔۔احتساب مانگتا ہے۔۔۔ لہو مانگتا ہے اس دن سے سب کو ڈرنا چاہیے بالخصوص ان لوگوں کو جو بااختیارہیں ۔۔۔بے اختیار جن کے رحم و کرم پر ہیں۔۔۔ کہ سدا بادشاہی اللہ تعالیٰ کی ہے یہ بات تو بھولنے والی نہیں۔