انتخابات میں چند دن رہ گئے ہیں طبل جنگ بج چکا ہے چاروں صوبوں میں اکھاڑے سج چکے ہیں۔انتخابات کی تیاریاں زور وشور سے چل رہی ہیں ان انتخابات کے ذریعے قوم نے آئندہ پانچ سال کے لئے اپنے نمائندے منتخب کرنے ہیںاس موقع پر پوری قوم کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی۔عوام کو یہ سوچنا ہو گا کہ کون سی جماعت پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔قومی منظر نامے میں فی الحال کسی جماعت کا ایسا ویژن نظر نہیں آتا سوائے وعدوں کے ابھی تک کسی جماعت کے پاس نہ تو ماضی کی شاندار کارکردگی ہے نہ ہی آئندہ کا لائحہ عمل۔اس وقت انتخابات کی صورت میں ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو ان زبردست چیلنجوں سے نبردآزما ہو کر تاریخی کردار ادا کر سکے۔
گزشتہ عشرے میں آمر حکمرانوں اور جمہوریت کے نام پر اقتدار حاصل کرنے والوں نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پینچائے ہیں۔بیڈ گورننس،امن کی دگرگوں صورتحال،ڈرون حملوں کی صورت میں پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کی خلاف ورزیوں،بدترین لوڈ شیڈنگ،مہنگائی ،کرپشن،بے تحاشہ بے روزگاری اور تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت نے قوم کو دکھ اور مصیبت کی دلدل میں پھنسا دیا ہے۔انتخبات جیسے جیسے نزدیک آرہے ہیں سیاسی میدانوں کی رونقیں بڑھتی جا رہی ہیں انتخابت جیتنے کے لئے پارٹیوں نے منشور کی صورت میں پھر سے ”سبز باغ” دکھانا شروع کر دیے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا پر عربوں روپے کے انتخابی اشتہارات چلائے جا رہے ہیں۔
Muslim League (N)
سیاسی پارٹیوں کی سوشل میڈیا ٹیمیں بھی متحرک ہو چکی ہیں پارٹیاں ایک دوسرے پر کیچر اچھالنے میں پیش پیش ہیں۔نت نئے نعرے مارکیٹ میں آچکے ہیں ۔مسلم لیگ ن اپنے انتخابی نشان شیر کی مناسبت سے یہ نعرہ لگاتی نظر آتی ہے ”شہر کا نشان ، روشن پاکستان” اسی طرح ”اک واری فیر۔۔شیر” کے نعرے لگ رہے ہیںجبکہ تحریک انصاف اپنے نشان بلے کے لئے ووٹ مانگنے کے لئے ”اتے اللہ۔۔۔تھلے بلا ” کا نعرہ لگا رہی ہے۔جماعت اسلامی تقریبا 25 سال بعد اپنے انتخابی نشان ”ترازو” پر الیکشن لڑنے جا رہی ہے،جماعت اسلامی اپنے لئے کچھ اس طرح سے ووٹ مانگتی نظر آتی ہے۔۔۔”جیتے گا اس بار تراز۔۔۔۔۔ووٹوں کا حقدار ترزو” پانچ سال کرپشن کے ریکارڈ قائم کرنے والی پیپلزپارٹی اپنی پانچ سالہ بد ترین کارکردگی پر ”پردہ” ڈالتی اور بینظیر بھٹو کی شہادت کے نام پر لوگوں کو جذباتی طور پر متاثر کرتی نظر آتی ہے۔
پانچ سال قوم کو اندھیروں کی طرف دھکیلنے والی جماعت بڑی ڈھٹائی سے ”جیت کا نشان ۔۔۔۔تیر کا نشان” کا نعرہ لگا رہی ہے۔اس بار پیپلز پارٹی کو عوام کو بیوقوف بنانے کے کھیل میں مسلم لیگ ق بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ شامل ہے۔انتخابات کے حوالے سے مختلف چہ میگویاں جاری ہیںامیدوار اور ووٹر دونوں بے یقینی کی صورتحال میں مبتلا ہیںاور جیسے جیسے انتخابات نزدیک آرہے ہیں دن بہ دن دھماکوں اور دیشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔لیکن اس منظر نامے میں ایک بات تو طے ہے کہ مقتدر ادارے پاکستان میں بروقت انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف اندورونی و بیرونی قوتیں اپنے اپنے مفادات کے لئے ہر صورت میں انتخابات کا التواء چاہتی ہیں۔
یار لوگ سر عام کہہ رہے ہیں کہ 11 مئی کو الیکشن ہوتے نظر انہیں آرہے ہیں۔اس وقت اہم بات یہ ہے کہ الیکشن کے التواء کی صورت میں پاکستان کو کیا نقصان پہنچے گا الیکشن نہ ہونے کی صورت میں بلوچستان کی محرومیوں مین مزید اضافہ ہو گا اور جب تک جمہوری عمل کے ذریعے کوئی مضبوط حکومت نہیں بنتی تب تک بلوچستان کا مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آرہا اسی طرح لوڈ شیڈنگ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کو مضبوط منتخب حکومت ہی روک سکتی ہے وہ اسی صورت میں بن سکتی ہے جب منصفانہ الیکشن ہوں۔۔۔لیکن کیا کریں؟ یار لوگ بڑے یقین سے الیکشن نہ ہونے کی پیشین گویاں کر رہے ہیں۔ ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا آگے آگے دیکھ ہوتا ہے کیا،