مسئلہ کشمیر کشمیری قوم کے غضب شدہ حق خودارادیت کا مسئلہ ہے۔کشمیری قوم کو بھارتی سرکار نے کشمیر پر فوج کشی کر کے اس حق سے محروم کر دیا کشمیری قوم گزشتہ66 سالوں سے اس سلب شدہ حق کی بازیابی کے لیے جان و مال کی قربانیاں پیش کرتی رہی ہے قربانیوں کی تعداد پانچ لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی ہے ان حالات میں جبکہ قوم پر شہیدوں کی قربانیوں کا بھاری قرض ہے حکمرانوں کی طرف سے پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات انعقاد عمل میں لایا جا رہا ہے تاکہ دنیا کی توجہ کشمیر میں جاری آزادی کی جدوجہد سے ہٹائی جائے پوری قوم کو ہوش کے ناخن لے کر انتخابات کامکمل بائیکاٹ کر کے دنیا پر واضح کرنا چاہیے کہ ابھی مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوا ہے ابھی ہم کشمیری بھارت کے جبری تسلط میں پسے جا رہے ہیں۔
ابھی بھی فوج کی حکومت ہے فوج کشمیری مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر انہیں قتل کرتی ہے بچوں اور نوجوانوں کو حراست میں لیتی ہے فوج کو سخت گیر کالے قوانین یہ حق دیتے ہیں کہ وہ جہاں اور جس کو چاہے گولی مار سکتی ہے یا گرفتار کر سکتی ہے لہٰذا الیکشن محض اس لیے کرائے جا رہے ہیں کہ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر پردہ ڈالا جائے اور کشمیر پر بھارت کی جبری حکمرانی کو جمہوری رنگ میں رنگا جائے ۔مقبوضہ کشمیر حکومت نے خود سپرد گی کرنے والے سابق عسکریت پسندوں کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں سے شادی کرکے وادی جانے والی پاکستانی خواتین نے حالات سے تنگ آکر خود کشی کرنے لگی ہیں۔ واپسی کے بعد سماجی و مالی بدحالی کی شکار سرحد پار کی اکثر خواتین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔
اسی نوعیت کے ایک سنسنی خیز واقعہ میں پاکستانی زیر انتظام آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والی خاتون نے خود سوزی کی کوشش کی اور اب وہ صورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ مقبوضہ کشمیر حکومت کی باز آباد کاری پالیسی کے تحت برسوں بعد اپنے گھروں کو لوٹ سابق مجاہدین کو نت نئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ حکومت کی عدم توجہی اور اہلخانہ کی بے گانگی کے باعث ان کی پاکستان اور آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والی اہلیات واپس جانے پر بضد ہیں اسی طرح کے ایک واقعہ میں تین روز قبل بانڈی پورہ ضلع کے بتی پورہ گاؤں میں آزاد کشمیر کی رہنے والی ایک خاتون سائرہ بانو زوجہ عبدالمجید نے شوہر کے ساتھ واپسی کے معاملے پر ہوئی تلخ کلامی کے بعد خود کو شعلوں کی نذر کر دیا۔
حالیہ برسوں میں مقبوضہ کشمیر حکومت کی پالیسی کے تحت نیپال کے راستے واپس کشمیر لوٹے سابق مجاہدین اور ان کی بیوی بچوں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے آواز بلند کرنے والی ایک خاتون سماجی کارکن شیرین نے بتایا کہ تقریبا 18 سال تک آزاد کشمیر میں رہنے کے دوران عبدالمجید ساکنہ بتی پورہ بانڈی پورہ نے وہاں کی ایک خاتون سائرہ بانو کے ساتھ شادی کر لی اور ان کے ہاں دو لڑکیوں اور ایک لڑکے نے جنم لیا۔اس کے بعد عبد المجید اپنے بیوی بچوں کی ضروریات کو پورا نہ کرسکا اور اس حوالے سے اہل خانہ کی بے گانگی اور سرخار کی عدم توجہی کے نتیجے میں سرحد پار سے تعلق رکھنے والی اس کی اہلیہ نئی پریشانیوں سے دو چار ہو گئی اور اسی وجہ سے دونوں کے درمیان آئے روز لڑائی جھگڑا اور تلخ کلامی کی صورتحال پیدا ہونے لگی۔
شیرین کے مطابق تین روز قبل اسی معاملے پر دونوں کے درمیان ہوئی تلخ کلامی کے بعد تین کمسن بچوں کی مان سائرہ بانو نے خود کو شعلوں کی نذر کر ڈالا جس کے نتیجے میں اس کے جسم کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ بری طرح سے جھلس گیا اور مذکورہ خاتون کو نازک حالت میں صورہ میڈیکل انسٹیٹیوٹ منتقل کیا گیا جہاں گزشتہ تین دنوں سے اسکی حالت انتہائی نازک ہے اپنے پرانے ساتھی کو درپیش اس نئی مصیبت کے سلسلے میں جانکاری حاصل کرنے کے بعد 16 برس بعد آزاد کشمیر سے اپنی بیوی اور بچوں سمیت واپس گھر لوٹے اندر پلوامہ کے رہنے والے سابق مجاہد رئیس احمد ڈار ولد عبد الرحمن نے بتایا کہ عبدالمجید میر کی اہلیہ سائرہ بانو کی حالت انتہائی نازک ہے۔
ریاستی سرکار نے ہمیں سبز باغ دکھا کر واپس آنے کا راستہ تو دکھایا لیکن یہاں پہنچنے کے بعد ہمیں پوری طرح سے نظر انداز کیا گیا۔ سرکار نے باز آباد کاری کا وعدہ کیا تھا لیکن اس کے برعکس ہماری کوئی مدد نہیں کی جا رہی ہے اس نے انکشاف کیا کہ جتنے بھی سابق مجاہد ریاستی سرکار کی باز آباد کاری پالیسی کے تحت واپس اپنے گھروں کو لوٹے ہیں انہیں طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔یہ صرف عبدالمجید کی اہلیہ کی بات نہیں بلکہ جتنے بھی سابق مجاہدوں نے آزاد کشمیر میں قیام کے دوران وہاں شادی کی ان کی بیویاں یہاں نت نئے مشکلات میں مبتلا ہونے کے بعد اب واپس لوٹنے پر بضد ہیں لیکن ہم انہیں واپس بھی بھیج نہیں سکتے۔ ہمیں سرحد پار سے تعلق رکھنے والی بیویاں طعنہ دیتی ہیں۔
Passport
کہ ہماری (پاکستانی) سرکار نے آپ لوگوں کو پاسپورٹ اور دیگر سہولیات دے کر واپس اپنے گھروں کو بھیج دیا لیکن آپ لوگوں کی اپنی سرکار اور اپنے گھر والے آپ کی کوئی مدد نہیں کر رہے ہیں۔ مقامی حقوق انسانی فورم ووئس یف وکٹمز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عبد القدیر ڈار نے بتی پورہ بانڈی پورہ میں سابق مجاہد کی سرحد پار سے تعلق رکھنے والے اہلیہ کی طرف سے خود سوزی کی کوشش کو انتہائی تشویش ناک قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اپنے گھروں کو لوٹ چکے نوجوانوں اور ان کے اہل خانہ کے تئیں ریاستی سرکار کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہیں۔
نوہٹہ چوک سرینگر سے پاندان کی طرف مڑتے ہی داہنی جانب ایک بوسیدہ سے مکان کی تیسری منزل پر ایک کنبہ ڈیڑھ کمرے پر مشتمل کرایہ کی رہائش میں الم و ماتم پر مبنی زندگی گزارنے پر مجبور ہے، 2008ء میں اس کنبے کے چشم و چراغ بلال احمد شیخ کی شہام پورہ نوہٹہ میں قابض فورسز کی گولی لگنے سے وفات کیا ہوئی کہ پہلے سے مصیبتوں کے مارے اس کنبے پر افتاد کے نئے پہاڑ ٹوٹ پڑے، عمر کی خزاں کا دور دیکھ رہے محمد یوسف شیخ کو جب اپنے 16 سالہ نونہال بیٹے بلال کی موت کی خبر ملی تو ان کی جیسے کمر ٹوٹ کر رہ گئی اور پچھلے 6 سال سے وہ بستر علالت کی ہی ‘زینت’ بنے ہوئے ہے، بلال کی والدہ نور جہاں بیگم، جن کا بنیادی طور پر تعلق مغربی بنگال سے ہے، نہ صرف اپنے بیٹے کی جدائی نے خون کے آنسو رلایا ہے بلکہ بلال کی موت نے اس سے اس کا مائیکا بھی چھین لیا ہے، بمشکل گزارہ کر رہے اس کنبے نے بلال کی تمام تصویروں کو ایک بکسے میں بند رکھا ہے۔
جونہی تصویریں بکسے سے باہر آئیں تو پورا کمرہ آہ بکا سے بھر گیا، وقت کے مرحم نے بھی شاید اولاد کی جدائی کے زخم کو مندمل نہیں کیا ہے، آنکھوں میں آنسو لئے کشمیری کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں نور بی بی کہتی ہے کہ میں بیٹے کی تصویریں نہیں دیکھ پاتی اسلئے ان کو بند کر رکھا ہے۔وہ میرا لاڈلا بیٹا درزی کا کام کرتا تھا اور ہر سال مجھے میکے بھیجنے کا بھی انتظام کردیتا تھا تاہم اب 6 سال کے عرصے میں، میں صرف دو بار ہی میکے جا پائیں ہوں، میں اپنی اور اپنے خاوند کی ادویات کے خرچے، گھر کے کرایہ اور دیگر اخراجات سے ہی نہیں نکل پاتی تو میکے جانے کی کیا سوچوں؟ پیشے سے خاکروب محمد یوسف ملحقہ علاقوں میں صفائی کا کام کرتا تھا، تاہم بیٹے کی موت کے ساتھ ہی گھر میں عارضوں کا سلسلہ بھی چل پڑا جس نے سب سے پہلے شیخ کالونی مخدوم صاحب میں چھوٹا سا جھونپڑا بیچنے پر مجبور کر دیا۔
اور نوہٹہ میں کرایہ کے کمروں میں سکونت اختیار کر لی، جس کا کرایہ بھی کئی ماہ سے واجب الادا ہے۔ نورہ بی بی کا کہنا ہے کہ سرکار نے اگر چہ ان کو ایک لاکھ روپے کا معاوضہ 2009ء میں ریاستی انسانی حقوق کمیشن کی مداخلت کے بعد ادا کر دیا تھا تاہم نوکری کیلئے اب تک ان کو در در کی ٹھوکریں کھانا پڑ رہی ہیں۔ نورہ بی بی کے مشکلیں اس وجہ سے بھی دو بالا ہو گئی ہے کیونکہ شوہر کے بیمار پڑ جانے کے بعد اب ان کو گھر کے اندر اور باہر دونوں محاذ سنبھالنے پڑ رہے ہیں، نورہ بی بی کے مطابق وہ خود دل کے عارضے میں مبتلا ہے لیکن ڈاکٹر کے پاس جاتی ہی نہیں،اْس کا کہنا ہے کہ جانتی ہوں اگر میں گئی تو ادویات کا اضافی بوجھ کون اٹھائے گا۔؟