بوڑھے مسلمان کی داڑھی ہندو غنڈوں نے زور سے پکڑ رکھی تھی اور اسے جھٹکے دے اور دھمکا رہے تھے۔ نحیف ونزار سفید ریش مسلمان کی آنکھوں سے موت کا خوف ٹپک رہا تھا اور جان بچانے کے لئے وہ کچھ بھی کہنے کو تیار تھا… ہندو غنڈوں نے اسے داڑھی سے کھینچتے ہوئے کہا … بول! مودی میرا باپ ہے” بوڑھا مسلمان الفاظ دہرانے پر مجبور تھا۔ بول! ”ہندوستان کی جے” ”بول پاکستان کی ماتا کی…” ان دنوں جب سے بھارت میں انتخابات کا بخار پورے عروج پر تھا یہ وڈیو تب سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔
بھارت میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں وہی نریندر مودی اب وزیراعظم بننے والا ہے جس کے وزیراعلیٰ بننے سے بھی بھارتی مسلمانوں پر رعشہ طاری ہو جاتا تھا کیونکہ نریندر مودی تو مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہے۔ بھارتی مسلمان نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے ڈر سے تھرتھر کانپ رہے تھے لیکن چونکہ بھارت اب مکمل طور پر اسلام دشمن اور انتہا پسند ہندو ریاست میں تبدیل ہو چکا ہے اس لئے اب صاف نظر آ رہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی خیر نہیں۔ اس کا ایک ثبوت تو بھارت کی نومنتخب اسمبلی میں مسلمان ممبران کی تعداد سے بھی ہو سکتا ہے جو تاریخ کی سب سے کم تعداد میں پارلیمنٹ پہنچے ہیں اور بھارت پارلیمان میں تو پاکستان کی طرح نہ تو اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستیں ہیں اور نہ خواتین کے لئے کہ جن کے ذریعے سے چند مزید مسلمان بھارتی پارلیمان میں پہنچ سکیں۔
اس وقت کیفیت یہ ہے کہ بی جے پی نے تادم تحریر 282 نشستیںجیتی ہیں جن میں سے کوئی ایک بھی مسلمان نہیں ہے اور 543 ممبران کے ایوان میں اس وقت تاریخ میں سب سے کم مسلمان ممبران 20 کی تعداد میں بیٹھے ہیں۔ بھارت کی ریاست اترپردیش سب سے بڑی ریاست ہے جہاں 3 کروڑ مسلمان بستے ہیں لیکن تین کروڑ مسلمانوں کا کوئی ایک نمائندہ بھی پارلیمنٹ نہیں پہنچ سکا ہے۔ یہ وہی اترپردیش ہے جس کے چار اضلاع خصوصاً مظفر نگر اور شاملی میں ہندوئوں نے گزشتہ سال ماہ ستمبر کی 7 اور 8 تاریخ کو مسلمانوں پر ظلم و دہشت کی قیامت ڈھائی تھی۔ کئی مساجد اور مدارس پر قبضہ کر کے انہیں مندر بنایا گیا۔ یہاں کے 20 ہزار سے زائد مسلمان اب بھی جگہ جگہ بے گھر پڑے گل سڑ رہے ہیں اور یہ اس کا نتیجہ ہے کہ اترپردیش میں بھی بی جے پی کو تاریخی کامیابی ملی ہے اور انہوں نے یہاں بھی ریکارڈ نشستیں حاصل کی ہیں۔ گزشتہ کئی سال سے نریندر مودی کو آر ایس ایس خاص طور پر ملک بھر میں متعارف کروا رہی تھی اور ملک کا اگلا نجات دہندہ ثابت کر رہی تھی۔ اسی لئے تو اب اسے آر ایس ایس کی ہی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔
نریندر مودی نے انتخابی مہم کے دوران میں ملک بھر میں چار سولہ سے زائد جلسے کئے تھے جن میں وہ ملک کو ہندو راشٹرا بنانے کا کھل کر اعلان کرتا رہا۔ کہیں اس نے پاکستان کو سبق سکھانے کا اعلان کیا تو کہیں بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا فیصلہ سنایا۔ کہیں مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو کچلنے کی دھمکی دی تو کہیں آسام میں رہنے اور بنگلہ زبان بولنے والے مسلمانوں کو دھمکی دی کہ اگر وہ اقتدار میں آیا تو یہاں کے ان مسلمانوں کو ملک سے بھگا کر بنگلہ دیش بھیج دے گا۔ یہی تو وجہ تھی کہ یہاں کے بوڈوقبائل نے 2 مئی کو ان مسلمانوں کو خاک و خون میں تڑپا کر رکھ دیا۔ یہ آر ایس ایس کی کامیابی کا ہی تو کھلا اظہار ہے کہ ابھی بی جے پی برسراقتدار نہیں آئی کہ اس کے غنڈوں نے منگور شہر میں تین مساجد پر دھاوا بول دیا اور وہاں تباہی مچا دی یہ تو مسلمانوں کی خوش قسمتی تھی کہ وہ بچ کر نکل گئے وگرنہ ان کی ہمیشہ کی طرح خیر نہیںتھی۔ بھارت میں مسلمانوں کے کلیدی رہنما اویسی خاندان کے چشم و چراغ بیرسٹر اسد الدین اویسی اور اکبر الدین اویسی نے 17 مئی کو حیدرآباد میں مسلمانوں کے بڑے جلسے سے خطاب کیا۔ اسد الدین اویسی نے ایک ہی روز حیدرآباد میں بھارتی پولیس کے ہاتھوں شہید ہونے والے مسلمانوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ہندو فرقہ پرست پولیس عہدیداروں کے حوالے سے سوال اٹھایا کہ کیا گولیوں پر صرف مسلمانوں کا نام لکھا ہے جو نفرت کی بنیاد پر چلائی جا رہی ہے۔
Uttar Pradesh
انہوں نے کہا کہ مکہ مسجد، اجمیر شریف، مالے گائوں اور گجرات میں جو بم دھماکے ہوئے اس کے کون ذمہ دار ہیں؟ سادھوی پرگیا ٹھاکر، کرنل پروہت کون تھے؟ ان دھماکوں کے یہی ذمہ دار تھے۔ مکہ مسجد میں دھماکہ ہوا ہمارے نوجوان شہید ہوئے اور مسجد سے نکلنے پر ہم پر ہی گولیاں چلائی گئیں۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کہا کہ پارلیمنٹ میں وہ ببانگ دہل یہ کہنے کے لئے تیار ہیں کہ نریندر مودی گجرات کے مسلمانوں کا قاتل ہے، احسان جعفری کے قتل کا ذمہ دار ہے اور گجرات کے نام نہاد ڈویلپمنٹ کے نام پر قوم کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ احمد آباد کے جوہاپورا میں جہاں 4.5 لاکھ مسلمان بستے ہیں وہاں احمد آباد کے تمام دوا خانوں کا کچراڈالا جاتا ہے اور اسے جلایا جاتا ہے۔ جو شخص احمد آباد کے جوہاپورا کو صاف نہیں کر سکتا وہ کیا گنگا کو صاف کرے گا۔ صدر مجلس نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہندوستان اکثریتی جمہوریت کی سمت چلا گیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ اترپردیش میں جہاں مسلمانوں کی آبادی 19 فیصد سے زائد ہے ایک بھی مسلمان رکن پارلیمنٹ منتخب نہیں ہو سکا۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ مظفر نگر میں جہاں 60 مسلم خواتین کی عصمت ریزی کی گئی۔ ڈیڑھ لاکھ بے گھر ہو گئے۔ میرٹھ، مراد آباد، سنبھل جیسے 20 حلقوں میں مسلم اکثریت کے باوجود بی جے پی کے امیدوار کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ 15 ویں لوک سبھا میں تقریباً 8 مسلم ارکان پارلیمنٹ زیادہ تھے جو اس مرتبہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے شاہنواز حسین کو بھی ہرا دیا گیا۔ آسام اور اترپردیش میں 20 فیصد اور مہاراشٹر میں 15 فیصد ہونے کے باوجود ہماری شکست کیوں ہو رہی ہے۔ اس جلسے سے خطاب میں اکبر الدین اویسی قائد مجلس لیجس لیچر پارٹی نے کہا ہندوستان کے 25 کروڑ مسلمان اپنے وجود کا احساس کیوں نہیں دلا سکے؟ اس کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اترپردیش میں تین کروڑ مسلم آبادی ہونے کے باوجود ایک بھی مسلم رکن پارلیمنٹ منتخب نہیں ہوا اور بی جے پی کے 80 میں سے 70 سے زائد رکن کیسے منتخب ہوئے؟ قائد مجلس نے مسلمانوں کی غیرت اور ان کی خودداری کو للکارتے ہوئے کہا کہ 60 برسوں سے ہزاروں فسادات اور تباہیوں کے باوجود آخر وہ کیوں بیدار نہیں ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آخر ہم مزید کس تباہی کے منتظر ہیں۔
یوں اب بی جے پی کی اس کامیابی سے بھارتی مسلمانوں کو ہندو کی خوفناک شکل صاف اور واضح دکھائی دے رہی ہے اس لئے تو اب ان میں بیداری کی وہ لہر بیدار ہو رہی ہے کہ جس کا اظہار 17 مئی کو بھارت مسلم طلبہ کی تنظیم سٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا کے ارکان نے بھوپال کی عدالت کے احاطے میں پولیس کے سخت گھیرے کے باوجود نعرئہ حق بلند کر کے بھارتی مسلمانوں کی غیرت جگانے کی کوشش میں ”طالبان آئے گا۔
نریندر مودی جائے گا” اور ”اب کی بار مودی کا نمبر” جیسی صدائیں بلند کر کے کی۔ بھارت کے ہندوئوں نے اسلام دشمنی اور اپنی اکثریت کی بنیاد پر حکومت حاصل کر کے بھارت کے سیکولرازم کے دعویدار چہرے سے پھر نہ صرف خود ہی پردہ چاک کر ڈالا ہے بلکہ اپنی اس تباہی کو خود ہی دعوت دے دی ہے جو ابھی ان کے لئے خواب و خیال ہے۔