بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے الیکشن سے قبل عوام کو اچھے دن آنے کے جو خواب دکھائے تھے صرف ابتدائی سو دنوں کی مودی حکومت میں وہ خواب بکھر کر رہ گئے 60 دنوں میں باہر کے بینکوں سے پیسہ واپس ہندوستان لانے کا وعدہ کاغذوں میں لکھا رہ گیا۔
مودی سرکار میں خواتین پہلے سے زیادہ متاثر ہونے لگی ہیں سڑکیں اور تعمیراتی کام بھی پہلی جیسی ہی حالت میں موجود ہیں، عوام کا اچھا ہونا یا عوام کے لئے اچھے دن دستیاب ہونا ابھی تک کہیں نظر نہیں آئے، مہنگائی لگاتار بڑھتی جا رہی ہیں فرقہ وارانہ وارداتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے، نریندر مودی کے ابتدائی سو دنوں میں ایک طرف پاکستان کے ساتھ تحفے تحائف کا تبادلہ کیا گیا تو دوسری جانب کنٹرول لائن کی مسلسل خلاف ورزی کی گئی جس سے پاکستانی شہریوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا، بھارت سرکار نے مذاکرات کا ڈھونگ بھی رچایا مگر پھر خود ہی پیچھے ہٹ گئے۔
بھارتی آرمی چیف اور بھارت سرکار کے وزراء نے پاکستان کو متعدد مواقع پر دھمکیاں بھی لگائیں، صرف پاکستان پر ہی ان سو دنوں میں بھارت سرکار کی توجہ رہی جس کی وجہ سے مقامی سطح پر کچھ نہ ہوا،اک طرف پاکستان تو دوسری طرف وہاں مسلمانوں پر مظالم کا ایک نیا دور شروع ہوا ۔مسلم نوجوانوں کو جہاں تشدد کا نشانہ بنایا گیا وہیں جیلوں میں بھی ڈالا گیا جبکہ ہندو انتہا پسندوں کو کھلی چھٹی دے دی دئی ،اگر مودی حکومت کو دیکھا جائے تو سو دنوں میں ایک سو دس چھوٹے بڑے ایسے واقعات ہوئے ہوں گے جن میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی گئی،وزارت داخلہ، ہندوستان حکومت کے تحت کام کرنے والے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق بھارت کی جیلوں میں سزا کاٹنے والے کل قیدیوں میں سے صرف مسلم مجرموں کی تعداد 53 ہزار 836 (21 فیصد) ہیں، اس میں دونوں (سزا یافتہ اور زیر غور) قسم کے قیدی شامل ہیں۔ اس میں بھی اتر پردیش کے جیلوں میں ہی مسلم قیدیوں کی تعداد ملک میں سب سے زیادہ ہے۔
اس کے بعد بہار، مہاراشٹر اور مغربی بنگال کا مقام ہے۔جہاں تک ہندو، مسلم، سکھ اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کی بات ہے اس میں آبادی کے حساب سے دیکھا جائے تو مسلم ملک کی کل آبادی کا تقریبا 16 فیصد ہیں جبکہ کل جرائم میں ان کے شمولیت 21 فیصد ہے۔ وہیں کل آبادی کا 84 فیصد ہندو ہیں جبکہ جرائم میں ملوث ہونے کا اوسط فیصد 70 کے ارد گرد ہے کیونکہ ہندوستان کے جیلوں میں بند (سزا یافتہ اور زیر غور) قیدیوں میں سے 71۔4 فیصد ہندو ہیں وہیں سکھ مجرموں کی تعداد (سزا یافتہ اور زیر غور) 4 فیصد ہے۔ اور ملک کی آبادی میں دو فیصد کی شرکت کرنے والے عیسائی کا (سزا یافتہ اور زیر غور) قیدیوں کے اعداد و شمار 4 فیصد ہے۔ یعنی کہنے کا مطلب یہ کہ ملک کا ہر 16 واں فرد مسلم ہے لیکن بھارت میں ہونے والے 100 جرائم میں 21 جرائم مسلمانوں کے نام ہیں۔اس سلسلے میں مختلف جماعتوں اور تنظیموں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جاتا رہا ہے کہ بھارت کی جیلوں میں سب سے زیادہ مجرم مسلم ہیں اور اس کے پیچھے پولیس کے کردار پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ اگرچہ اس معاملے میں گزشتہ سال مہاراشٹر کے پولیس ڈائریکٹر جنرل سنجیو دیال، اتر پردیش کے ڈی جی پی دیوراج سول اور تمل ناڈو کے ڈی جی پی کے۔ رامانجم کی جانب سے مرکزی حکومت کو پیش کی گئی رپورٹ میں پولیس کی یک طرفہ کاروائی کا ذکر ملتا ہے۔بھارت میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئی میں ہونے والے مسلم کش فسادات کو اکیس برس گزرنے کے بعد بھی کسی مجرم کو سزا نہیں ملی جبکہ اس کے بعد ہونے والے بم دھماکوں میں کئی مسلمانوں کو ملوث ٹھہر اکر پھانسی اور دیگر سخت سزائیں سنائی جاچکی ہیں۔ جن واقعات میں مسلمانوں کو ملوث قرار دیاگیا ان میں ٹاڈا قوانین اور مسلم کش فسادات میں عام قوانین کا اطلاق کیا گیا ہے۔ 1993ء میں ممبئی میں ہونیو الے مسلم کش فسادات میں بااثر سیاسی لیڈران، پولیس افسران و اہلکار اور میڈیاکے ایک طبقے سے متعلق لوگ شامل تھے تاہم بم دھماکہ کیس میںجہاںمحض شک کی بنیاد پر ملزمان پر سخت گرفت کی گئی ہے وہیں اس کے برعکس مسلم کش فسادات میںملوث درندوں کو سہولیات فراہم کی گئیں اور وہ قانون کی گرفت سے آسانی کے ساتھ نکل گئے۔
Riot In India
یوں ان واقعات میں قانون اور انصاف ایک سنگین مذاق بن گیا ہے۔ حکومت مہاراشٹر اور پولیس نے سیریل بم بلاسٹ کے وعدہ معاف گواہوں اور وکلاء کو زبردست سکیورٹی فراہم کی گئی مگر ممبئی میں اکیس سال قبل مسلم کش فسادات کے حوالہ سے درج ہزاروں کیسوں کے گواہوں کو سکیورٹی فراہم کرنے کی خاطر کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ اسی طرح سرکاری سطح پر اچھے وکلاء فراہم نہیں کئے گئے اور جو وکلاء دیے گئے وہ بھی جانبداری سے کام لیتے رہے۔ اس لئے جہاں بم دھماکہ کیس میں مسلمانوں کو سخت سزائیں دی گئیں وہاں دوسری جانب فسادات میں ملوث ہندو انتہا پسند آج تک مکمل طور پر آزاد ہیں اور کھلے عام مزید فسادات پروان چڑھا رہے ہیں۔ بھار ت میں ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی کے لیڈر ساکشی مہاراج کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں مدرسے دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں جس پر مسلم تنظیموں نے شدید احتجاج کیا ہے جبکہ کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوںنے بھی اس بیان کی مذمت کی ہے۔ساکشی مہاراج نے کہاکہ بھارتی مدرسے دہشت گردی اڈے ہیں اور کوئی مدرسہ ایسا نہیں ہے جہاں 15 اگست یا 26 جنوری کو پرچم کشائی کی جاتی ہو۔ مدرسوں میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ وہاں صرف قرآن کی تعلیم دے کر دہشت گردی اور جہادی بنانا قوم کے بالکل بھی مفاد میں نہیں۔ بی جے پی ممبر پارلیمنٹ نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہاکہ مدراس میں مسلم نوجوانوںکو ہندو لڑکیوں سے دوستی کرکے انہیں مسلمان بنانے کی تربیت دی جارہی ہے۔ سماجوادی پارٹی، کانگریس نے بی جے پی سے ساکشی مہاراج کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابو القاسم نعمانی نے کہا ہے کہ بھارت کی آزادی مدارس کی ہی دین ہے۔ اگریہ مدرسے نہ ہوتے تو ملک میں 15 اگست اور 26 جنوری منانے کا کوئی جواز ہی نہیں ہوتا اوریہاں کوئی قومی تہوارنہ منائے جاتے۔بھارتی حکمرانوں کی اسلام و پاکستان دشمنی پر مبنی مہم اور ہندو انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ دینے کی وجہ سے ضمنی انتخابات میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے آبائی صوبہ گجرات اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی راجستھان کی وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے کی آبائی ریاست میں ووٹروں نے بی جے پی کو اس وقت زبردست جھٹکا دیاہے جب انہوں نے اس کی کئی سیٹیں اس کی اصل حریف کانگریس اور سماج وادی پارٹی کو دے دی ہیں۔
جبکہ اس کے برعکس سماج وادی پارٹی کے سر براہ ملائم سنگھ یادو کی آبائی ریاست اتر پردیش کے ووٹروں نے پارلیمانی انتخابات کے بعد سماج وادی پارٹی کا کمزور پڑتا قلعہ پھر سے مضبوط کرنے کے ا شارے دیتے ہوئے مین پوری کی لوک سبھا سیٹ پر سماج وادی کو کامیاب کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیر پور، چر کھری، بلہا، ٹھاکر دوار، نگھاسن اور سیراتھو سمیت8اسمبلی سیٹیں بھی اس کی جھولی میں ڈال دی ہیں جس سے پورے بھارت میں مودی لہرکے نعرے دم توڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں بی جے پی ابھی تک اسی خمار میں تھی کہ مودی لہر ابھی جاری ہے اور مودی کا جادو پھر سر چڑھ کر بولے گا لیکن 33 اسمبلی اور تین لوک سبھا سیٹوں کے لیے ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج نے یہ ثابت کر دیا کہ جوں جوں وقت گذرتا جارہا ہے مودی جادو کا زور ٹوٹتا جارہا ہے۔ ابھی بھارتیہ جنتا پارٹی مودی حکومت کے 100دن کی کامیابیوں کے جشن کے خمار سے آزاد بھی نہیں ہوئی تھی کہ ملک کی مختلف صوبوں کی اسمبلی کے ضمنی انتخاب نے اسے شکست کے زبردست جھٹکے دے کر حکومت کی 100روز کی کارکردگی کے جشن کا نشہ کافور کر دیا ہے۔