ایم کیو ایم پاکستان پی ایس 94 میں ضمنی انتخابات کے حوالے سے بڑی پرجوش دکھائی دی کیونکہ ایم کیو ایم پاکستان اپنی سیاسی جدوجہد کو متحرک کرنے کے لئے بڑی حد تک سنجیدہ نظر آرہی ہے۔ ماضی کی ایم کیو ایم اور موجودہ ایم کیو ایم ( پاکستان) میں بڑا نمایاں فرق نظر آرہا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے دہشت گردی اور سنگین جرائم میں ملوث جن ملزمان کو گرفتار کررہے ہیں ان کا زیادہ تر تعلق ایم کیو ایم لندن سے بتایا جاتا ہے ۔جس سے بڑی حد تک واضح ہورہا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اپنے نئے سیاسی امیج کے لئے کوشش کر رہی ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سامنے ڈاکٹر فاروق ستار اور پاک سر زمین پارٹی بڑے چیلنج ثابت نہیں ہوئے ہیں ، تاہم کراچی میں امن کے لئے ضروری ہے کہ کراچی کی اسٹیک ہولڈر جماعتیں مثبت سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھیں۔ عوامی نیشنل پارٹی نے ہفتہ باچا خان کی تقریبات کے حوالے سے اپنے طے شدہ شیڈول کے مطابق پروگرام منعقد کئے، خاص طور پر باچا خان مرکز میں کتب میلے کے انعقاد کی نئی روایت کی بنیاد رکھی ۔باچا خان ویلفیئر ٹرسٹ کی شائع کردہ کتب کے علاوہ دیگر ناشر کی کتابوں کو بھی کتب میلے کے اسٹالوں میں رکھا گیا ۔ اے این پی نے سفید لباس کو امن کی نشان قرار دے کر کراچی پریس کلب میں پر امن ریلی کا انعقاد کا پروگرام بھی بنایا جس سے کراچی میں امن و امان کی بہتر ہوتی صورتحال میں مزید بہتری آئے گی۔
سندھ اسمبلی میں ”سندھ امل امرجنسی سروس” کے نام سے پی پی پی نے خصوصی بل ایوان میں پیش کیا۔ یہ ایک تاریخی اقدام ہے جس میں تمام اسپتالوں کو پابند کیا جارہا ہے کہ حادثات میں زخمی ہونے والوں کا پہلے فوری علاج کیا جائے اور پھر بعد میں قانونی کاروائی کی جائے ۔ پرائیوٹ اسپتالوں کو بھی پابند کیا جارہا ہے کہ وہ پہلے زخمی کا علاج کریں گے، بل کا تقاضا اور ادائیگی کو پہلے دینے کی پالیسی کو ختم کرنا ہوگا ۔امل بل اس حوالے سے بھی تاریخی ہے کہ دہشت گردی یا حادثات میں زخمی ہونے والوں کے پرائیوٹ اسپتالوں کے بل بھی حکومت سندھ دے گی یہ قانون پورے سندھ کے لئے ہوگا ۔ یہ سندھ حکومت کا تاریخی قدم ہے اگر اس پر من و عن عمل ہوتا ہے تو اس سے غریب و متوسط طبقے کو ریلیف ملے گا اور قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچ سکیں گی۔
کراچی میں سیاسی تنازعات اپنی جگہ ، لیکن تجاوزات کے بعد غیر قانونی تعمیرات کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پر جو کاروائی ہوئی اب رہائشی املاک پر تجارتی بنیادوں پر تعمیرات کے انہدام کے سپریم کورٹ کے حکم نے صوبائی حکومت اور بلدیاتی اداروں کے ارباب اختیار کے ہوش اڑا دیئے ہیں۔ صوبائی وزیر بلدیات نے میڈیا میں واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ ایک بڑے انسانی المیے کو جنم دینے والے اس حکم پر عمل نہیں کرپائیں گے ۔ وہ وزرات چھوڑنے کے لئے تیار ہیں لیکن ان تعمیرات کو گراکر نیا انسانی المیہ پیدا نہیں کرسکتے ۔ ایک حد تک انہوں نے اپنی اس مجبوری کو واضح کیا کہ جنہوں نے رہائشی املاک کو تجارتی مقاصد کے لئے اجازت نامے دیئے اور ان اجازت ناموں کے بعد کھربوں روپے ادا کرکے فلیٹس اور دوکانیں خریدیں گئیں ان کا کیا بنے گا ، سات دنوں میں اتنے بڑے پیمانے پر کاروائی ممکن نہیں ہے ۔
وفاق سے کوئی فنڈ میسر نہیں ہے ، بے گھر ہونے والوں کو کہاں آباد کیا جائے گا ان کا کھربوں روپوں کا نقصان کس طرح پورا کیاجائے گا ۔ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ جس کا جواب کسی نہ کسی کو دینا اور ذمے داری قبول کرنا ہوگی ۔
غیر قانونی طور پر رہائشی املاک پر تجارتی پلازوں اور شادی ہالوں کی غیر قانونی تعمیرنشان دہی بار بار اور متواتر کئی برسوں سے کی جا ری تھی۔ لیکن اُس وقت کرپٹ افسران نے رشوت لے کر اجازت نامے دیئے۔ اہل کراچی کو پانی ، بجلی ، گیس اور بلدیاتی انفرا سٹرکچر میں تبدیلی کی وجہ سے پریشانی کا سامنا ہوا ۔ اب جب کہ یہ تعمیرات ہوچکی ہیں ، ہزاروں خاندان بستے ہیں ، انہیں کس طرح ریلیف ملے گا ،یہ سمجھ سے بالاتر ضرور ہے ۔ لیکن یہاں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ جن اداروں نے غیر قانونی اجازت نامے دیئے ، انہیں تمام نقصانات کا ازالہ کرنا چاہیے۔عدلیہ تمام ایسے اداروں کو پابند کرے جن کی موجودگی میں یہ سب غیر قانونی عمل ہوئے۔ اُن ذمے داروں کے خلاف نہ صرف کاروائی ہو بلکہ کھربوں روپے رشو ت لے کر اجازت نامے دینے والوں کی جائیدایں نیلام کرکے ازالہ کروایا جائے۔
کراچی کو اپنی اصل حالت میں بحال کرنے کے ٹاسک سے براہ راست عوام کو نقصان پہنچ رہا ہے لیکن یہاں عوام کو بھی ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا کہ وہ ایسی جگہوں پر اپنا سرمایہ نہ لگائیں جہاں قطعی غیر شفاف طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے۔اب اگر پارک ، میدانوں ، رفاعی و فلاحی پلاٹوں میں قبضہ مافیا غیر قانونی تعمیرات کررہی ہے تو عوام کو وہاں اپنا سرمایہ لگانے سے گریز کرنا چاہیے کہ یہ تو عوامی مفاد عامہ کی جگہیں ہیں جو یقینی طور پر غیر قانونی طریق کار کے تحت قبضہ مافیا لوٹ مار کے لئے تعمیرات کررہی ہے ۔ اس سے نہ صرف قبضہ مافیا کی حوصلہ شکنی ہوتی تو دوسری جانب سرمایہ کاروں کو نقصان بھی نہ پہنچتا ۔دوسری جانب رہائشی املاک پر تجارتی مقاصد کے لئے قائم تعمیرات قائم کرنے کے لئے اجازت ناموں کو حکومت بروقت روک سکتی تھی ۔ اُس وقت تو اُن کی ناک کے نیچے سب کچھ غیر قانونی طور پر قانون کے نام پر ہوتا رہا تو اب صرف استعفیٰ دینے سے کیا کھربوں روپے کا ازالہ ممکن ہوجائے گا۔یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا ۔
برسوں برس غیر قانونی کام کو نظر انداز کیا جائے اور پھر قانون حرکت میں آئے تو ہاٹھ اٹھالئے جائیں ۔اس کا حل بھی سپریم کورٹ کو ہی نکالنا ہوگا۔ڈاکٹر فاروق ستارکا کہنا تھا کہ جب بنی گالہ ریگولرائز ہوسکتا ہے تو کراچی میں کیوں نہیں ؟۔تجاوزات کے گرانے کا سلسلہ تاحال جاری ہے تاہم ہل پارک میں راہنما مسجد بھی شہید کرنے کے معاملے نے نازک صورتحال اختیار کرلی تھی جس سے اہل کراچی میں غم و غصے میں اضافہ ہوا جے یو آئی اور جماعت اسلامی نے مسجد کی دوبارہ تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا، نماز جمعہ بھی ادا کی گئی ، میئر کراچی نے مذہبی جماعتوں کے احتجاج کو سنجیدگی سے لیا اور ذمے داروں کے خلاف کاروائی کرنے کا اعلان کیا۔
نازک صورتحال کو مذہبی جماعتوں نے بڑی سنجیدگی اور بردباری سے قابو کیا اس حوالے جے یو آئی کراچی کے امیرقاری عثمان اور امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن تعریف کے مستحق ہیں، جنہوں نے عوام میں مذہبی اشتعال و انارکی پھیلانے والوں کی سازش کو ناکام بنایا اور اراباب اختیار سے ”راہنما مسجد” کی شہادت پر قانونی کاروائی کا مطالبہ کیا۔اسکول وین میں ناقص سلنڈر سے آگ لگنے کے مسلسل واقعات تقاضا کرتے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کے محفوظ ٹرانسپورٹ کو یقینی بنائیں۔ ناقص سی این جی اسکول وین پر پابندی حکومت کا درست اقدام اور بچوں کی قیمتی جانوں کے تحفظ کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ کورنگی اور ایف بی ایریامیں اسکول وین کو آگ لگنے کے حادثات اور اس طرح کے کئی واقعات معصوم بچوں کی قیمتی جانیں لے چکے ہیں۔