انتخابات سے قبل جو بھی شکوک و شبہات رہے ان کے باوجود وطن عزیز جمہوری تاریخ کی تیسری آئینی مدت کے لیے پارلیمانی نظام کی تشکیل نو کرنے جا رہا ہے۔ اگرچہ روایتی سیاست کو عوام نے مسترد کر دیا ہے لیکن پھر بھی مجموعی طور پر روایتی سیاستدان ہی کامیاب رہے ہیں ماسوائے ان مذہبی سیاسی راہنمائوں کے جن کی زندگی مختلف مسلکوں اور فرقہ واریت کی بنیاد پر گزر رہی ہے ۔اب تک کے نتائج کے مطابق تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے جبکہ مسلم لیگ ن دوسرے نمبر پر ہے اور پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر اپنی پوزیشن بنانے میں کامیاب رہی ہے ۔ ہمارے ملک میں ہارنے والے دھاندلی کا شور کیا ہی کرتے ہیں کہ ثبوت کی بھی کہاں ضرورت پڑتی ہے اور حکومت میں اپنے نہ ہونے کی صورت میں جمہوریت کو خطرہ قرار دیتے رہتے ہیں ۔کیونکہ یہاں تو سیاست عوام کو گمراہ کر کے اپنا الّو سیدھا کرنا ہے ۔اس کے لیے خواہ ملک کے حساس اور اعلیٰ ترین اداروں کو ہی بدنام کر کے کمزور کرنی کی کوشش کیوں نہ کرنی پڑے وہ کی جاتی ہے ۔تاہم یہ ملکی تاریخ میں نسبتاً شفاف ترین الیکشن ہے اور عمران خان نے اپنی وکٹری سپیچ میںبھی کہا ہے کہ اگر آپ کو کسی بھی حلقے میں دھاندلی کی شکایت ہے تو حلقے کا نام بتائیں اسی حلقے کو کھول دیا جائے گا ۔کہنا پڑے گا کہ ملک ایک آئینی اور جمہوری دور میں داخل ہوگیا ہے اور ملک دشمن عناصر اپنے ناپاک ارادوں میں دفن ہوگئے ہیں۔
عمران خان” تبدیلی ”کا نعرہ لیکر میدان میں اترے تھے اور متعدد بار شکست کا سامنا کرنا پڑاکہ 22 سالہ انتھک جدوجہد اور ثابت قدمی کا نتیجہ ہے کہ آج عمران خان دنیا کے پہلے کھلاڑی ہیں جو کہ سربراہ ملت بننے جا رہے ہیں جس کے لیے وہ مبارکبادکے مستحق ہیں۔عمران خان کی جدوجہد کو بیان کرنے کیلئے ایک دفتر چاہیے کہ میں نے یہاں تک پڑھاتھا کہ”سار پنڈ وی مر جائے مراثیاں دے منڈے نے فیر وی چوہدری نہیں بننا ”اورایسے ہی کردار کشی کی بے شمارکاوشیں کی گئی لیکن دیگر تمام رکاوٹوں کے باوجود عمران خان نے کسی چیز کی پرواہ نہیں کی ، ڈٹے رہے اور اپنی توانائیوں کو عوامی شعور اجاگر کرنے میں صرف کیا کہ شیروانی کا طعنہ دینے والوں کی اپنی شیروانی اتر گئی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ انسان جب سچے دل سے کوئی خواب دیکھتا ہے ،حصول ِتعبیر کے لیے شب و روز ایک کر دیتا ہے اور اللہ پر سچے دل سے توکل کرتا ہے تو اللہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے اورجس کا مددگار اللہ ہوجائے اس کی کامیابی صبح روشن کی دلیل جیسی ہوتی ہے ۔یقینا اللہ بڑا کارساز اور مہربان ہے اور ہر چیز پر قادر ہے بس انسان یہی بھول جاتا ہے مگر ہمیں امید ہے کہ عمران خان اس فتح کو عوامی اعتماد اور محبت کا انمول تحفہ سمجھتے ہوئے ملک و قوم کی بھلائی کے لیے انمٹ فیصلے اور کام کریں گے جوکہ ملک و قوم کا کھویا ہوا وقار اور استحکام لوٹانے میں معاون ثابت ہونگے۔
مبصرین اس بات پر مصر ہیں کہ انتخابات کے نتائج کو متنازع نہیں ہونا چاہیے جوکہ بنائے جا رہے ہیں تو ایسے دانشوران سے عرض ہے کہ سیاسی تاریخ کے ابوب پلٹ کر دیکھ لیں کہ انتخابات کو متنازع بنا کر دوسری حکومت کے لیے پریشانیاں پیدا کرنا اور مدت اقتدار میں خلل ڈالنا ہی روایتی سیاست کا میاب ہتھکنڈہ رہا ہے ۔کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر دیگر جماعتیں تو بہل جاتی ہیں مگر دوسرے نمبر پر رہنے والی جماعت یہ ٹھان لیتی ہے کہ ”ہم تو ڈوبے ہیں صنم ، تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے ”اور اب کے تو مسلم لیگ ن کا رونا ہی اور ہے ”ہمیں تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا ، میری کشتی ہی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا ” میاں نواز شریف کی طرز سیاست اور بیانیوں نے پارٹی کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے مگر میاں شہباز شریف کی ”ہتھ ہولا رکھو ” کی پالیسی کام کر گئی ہے یقینا اگر میاں شہباز شریف پہلے ہی ن لیگ کی قیادت سنبھال لیتے تو آج پوزیشن کچھ مزید بہتر ہوتی ۔ تاہم پنجاب میں پھر بھی بعض جگہوں پرمسلم لیگ ن کی پوزیشن مضبوط ہے اور ممکن ہے جہاں تک حکومت بنانے کا تعلق ہے اگر پی ٹی آئی نے تعاون کیا تو ن لیگ کی پنجاب میں حکومت بن سکے گی لیکن اگر پی ٹی آئی نے پنجاب کی حکومت خود بنانے کی ٹھان لی جیسا کہ کوششیں جاری ہیں تو پھر ہو سکتا ہے کہ ن لیگ کو اپوزیشن میں بیٹھنا پڑے ۔شنید ہے کہ اتحادی حکومت پر بھی غور ہو سکتا ہے جو بھی ہو مگر ایک بات تو طے ہے کہ عمران خان سے قوم کی بڑی توقعات وابسطہ ہیں اور ملک بھی بحرانوں کی زد میں ہے ایسے میں خان صاحب کو دوراندیشی ، حوصلہ مندی اور محتاط رویہ اختیار کرنا ہوگاکیونکہ اب غلطی کی گنجائش نہیں ہے ۔سبھی جانتے ہیں اقتدار سے محروم ہر سیاستدان نے برسر اقتدار کے خلاف کھل کر آواز اٹھائی اور یہی شور مچایا کہ اس نے بس کھایا ،اپنوں کو کھلایا اور ملک و قوم کے لیے کچھ نہیں کیا ۔۔مگر ۔۔اب ہر نیا آنے والا ذہن نشین کر لے کہ آنے والاکل اسے بھی پوچھے گا کہ تم نے کیا کیا ۔۔؟؟؟
ایک طرف نئے پاکستان کا شور برپا ہے اور دوسری طرف مذہبی جماعتوں کا رویہ اور بیانات انتہا پسندی اور تصادم کا عندیہ دے رہے ہیںجبکہ یہی ان کی ہار کی وجہ ہیں کیونکہ عوام لادینیت پسند نہیںہیں اور نہ ہی مذہب سے دور ہیں بلکہ عوام اسلام کے نام لیوائوں کے قول و فعل میں تضاد سے متنفر ہیں اور گذشتہ کئی برس سے دیکھ رہے ہیں کہ اسلام کے نام پر اسلام آباد کی سیاست کی گئی ہے ۔ملک میں جاری فحاشی و بے حیائی کا مسئلہ ہو ، میڈیا پر مغربی یلغار کا معاملہ ہو ، نام نہاد اینکرز علماء کی فرقہ واریت کو فروغ دینے کی بات ہو یا مقبوضہ کشمیر میںجاری ظلم و ستم پر آواز اٹھانے کا معاملہ ہو کسی بھی مسئلے پر قابل قدر یا قابل تعریف کام نہیں کیا گیا بلکہ سیاسی بیانیے سے مروجہ قوانین اور حالات کو وقت کی ضرورت قرار دیا گیا اور اسی کا نام نظریہ ضرورت رکھا گیا بدیں وجہ عوام نے انتخابات 2018 میں زیادہ ووٹ تو نہیں ڈالے مگر جتنے بھی ڈالے ہیں سوچ سمجھ کر حق رائے دہی کو استعمال کیا ہے ۔الیکشن آزادانہ ماحول میں منعقد ہوئے اسی وجہ سے متوقع دھاندلی اور دیگر منصوبوں پرعمل بھی نہیں ہوسکا کہ تمام خدشات اور امیدیں دھری کی دھری رہ گئیں ان حالات کے پیش نظر مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتیںدھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے انتخابات کو متنازع کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ اپنی خفت مٹائی جا سکے اوریہ سب روایتی ہتھکنڈے ہیں۔ہر ہارنے والے نے یہی کیا ہے کہ میں نے گرنا نہیں تھا بس جیتنے والے نے دائو لگا کر مجھے گرا دیا ہے ۔
بہر حال نادیدہ مداخلتوںکا واویلا تو جاری رہے گا لیکن اس وقت وطن عزیز جن داخلی اور بیرونی بحرانوں سے نبرد آزما ہے وہ قابل فکر ہیں۔ پانامہ لیکس ،ڈان لیکس اور دیگر لیکس نے بیرونی دنیا میں ہماری ساکھ کو بہت متاثر کیا ہے ۔ بین الاقوامی میڈیا میں ہمارا تمسخر اڑایا جا رہا ہے اور رہی سہی کسر ماضی کے حکمرانوں کے متنازع بیان نے پوری کر دی ہے ۔سول ملٹری تعلقات کی بحالی اور اداروں کے تقدس کی بحالی نا گزیر ہو چکی ہے ۔بین الاقوامی میڈیا میاں نواز شریف بیانیے کو لیکر کافی اچھل رہا ہے کیونکہ ایسے ہی بیانیوں کی بدولت پاکستان ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ میں شامل کر دیا گیا ہے اور اگر مناسب حکمت عملی اختیار نہ کی گئی تو پاکستان کو بلیک لسٹ بھی کیا جا سکتا ہے چونکہ اسلام اور پاکستان دشمن طاقتیں تو ہمیشہ سے نام نہاد جواز کی تلاش میں رہی ہیں جو کہ ہمارے بعض نالائق سیاستدانوں نے فراہم کر دیا ہے ۔اس کی ابتدا تب ہوئی تھی جب امریکہ نے ڈومور کا مطالبہ کیا تھا تو خواجہ آصف نے کہا تھا کہ ہمیں اپنے گھر کی صفائی کرنی پڑے گی اور اس بیانیے کو مزید تقویت تب ملی جب قائم مقام وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت سے پہلے ہی اس بیانیے کی تائید کر دی اور پھر رہی سہی کسر میاں نواز شریف اور دیگر لیگی وزراء نے پوری کر دی اور اب یہ ایک سنگین مسئلہ بن سکتا ہے جس سے نظر چرانا ممکن نہیں ہے۔
ہم برکس کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ کیوں فراموش کر چکے ہیں جو کہ ہمارے دوست ملک چین کے سامنے پیش کیا گیا تھا جس کے مطابق پاکستان میں کالعدم تنظیمیں کام کر رہی ہیں جوکہ فساد اور بد امنی کی مرتکب ہو رہی ہیں اور چین نے اس اعلامیے پر دستخط کئے جس کی زد میں پاکستان تھا جبکہ چین ماضی میں ہمیشہ پاکستان کی حمایت کرتا رہا تھا ۔ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی بھی کسی سے نہیں چھپی ہوئی ،افغانستان کے حالات ، کشمیر کی صورتحال اور مسلم امہ کی مجموعی حالت ، طاقتوروں کی ہٹ دھرمیاں اور دہشت گردی بھی سر اٹھا رہی ہے ۔۔ہم خود کو دھوکا کیوںدے رہے ہیں جبکہ پاکستان بین الاقوامی تنقید اور تنہائی کی زد میں آچکا ہے ۔ملک و قوم سے وفاداری کا حلف اٹھانے والوں نے اپنے سیاہ کرتوتوں کو چھپانے کے لیے ملک و قوم کی سلامتی کو دائو پر لگا دیا ہے ۔اور وہ اسلام اور پاکستان دشمنوں کے ایجنڈے کو تکمیل بخشنے تک برسر پیکار رہیں گے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ملک میں ان کے علاوہ کوئی دوسرا برسر اقتدار آ ئے کیونکہ پیچھے ہٹنے سے وہ کئی قسم کے مالی فوائد سے محروم ہو سکتے ہیں۔احمقانہ خارجہ پالیسی نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے لہذا اب صحت مند خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے جو پاکستان کے بہترین مفاد میں ہو تاکہ دیرینہ تنازعات اور قومی مفادات کے حصول میں خاطر خواہ نتائج میسر آ سکیں۔
یہ خوش آئند ہے کہ عمران خان نے اپنی تقریر میں سادگی ، عاجزی اور انکساری سے تمام ملکی و قومی مسائل پر بات کی اور اسی عزم کو دہرایا جس کا علم لیے وہ سیاسی میدان میں اترے تھے ۔ان کی باتوں میں سچائی اور حوصلوں میں جرات واضح تھی ۔ قوم منتظر ہے کہ عمران خان ماضی میں کئے ہوئے اپنے وعدے پورے کرے ! بنیادی سہولیات کی لیے ترجیحی بنیادوں پر مناسب اور دیر پا منصوبوں پر کام ہو کہ ا ب یہ گلہ نہ ہوکہ گذشتہ ستر برسوں میں پاکستان کے سربراہان مملکت پاکستانی قوم کو ایک گلاس شفاف پا نی بھی فرا ہم نہیں کر سکے۔ خود ساختہ ستاروں پر کمندیں ڈالتے رہے، اپنے بینک اکائونٹ بھرتے رہے ،اپنوں کو نوازتے رہے جبکہ انسان سسکتے رہے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اب کے عوام خالی ہاتھ نہیں رہیں گے اور دیگر تمام جماعتوں سے استدعا ہے کہ اب تقسیم کاری کی سوچ چھوڑ کر سب مل جل کر ملک و قوم کے لیے کام کریں تاکہ قائد و اقبال کا خواب شرمندہ تعبہر ہو سکے ۔۔۔