اسلام آباد (جیوڈیسک) متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما سینیٹر بابر غوری کا کہنا ہے کہ انتخابات کے دوران کئی جگہوں پر پہلے یہ فیصلے ہوچکے تھے کہ کس کو کیا دینا ہے، اس لئے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات ہونی چاہیئے۔
اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے بابرغوری کا کہنا تھا کہ دھرنا دینے والوں کی مایوسی بڑھ رہی ہے اس لئے آنے والے 48 گھنٹے انتہائی اہم ہیں، دھرنا دینے والی جماعتوں کے کئی ایسے مطالبات ہیں جو فوری طور پر پورے کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن صورت حال کفن تک پہنچ گئی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ صورتحال انتہائی سنگین ہے۔
طاہر القادری کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد حالات خراب ہوسکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کا کے وفد نے معاملات کے حل کے لئے مختلف جماعتوں سے رابطے کئے ، سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران ہمیں محسوس ہوا کہ معاملات کے حل کے لئے کہیں سے بھی لچک نہیں دکھائی جارہی۔ جس سے نقصان سسٹم کو ہوگا اور اسے بچانے کے لئے ہمیں سنجیدہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری پہلی ترجیح ریاست کو بچانا ہے لیکن اس کے لئے وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ ریاست ہوگی تو ہم سب ہوں گے۔
بابر غوری کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی بحران آتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ ہے اور عوام سوچتے ہیں کہ اس جمہوریت سے ہمیں کیا ملا تو اس وقت ہم اس کا جواب نہیں دے سکتے۔ جمہوریت جمہور کے لئے ہوتی ہے اور جمہور کو کچھ نہیں ملا، آمروں کے دور میں جمہوریت کو نچلی سطح پر پہنچایا گیا مگر بدقسمتی سے جمہوری دورمیں ایسا نہیں ہوا،جمہوری حکومتوں نے نچلی سطح تک جمہوریت نہیں دی۔ ملک میں ہم جمہوریت کواپنے انداز میں چلانے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر جمہوریت بھی نہیں رہتی۔ ایم کیو ایم کے رہنما نے مزید کہا کہ دو روز قبل الیکشن کمیشن کے ایک سابق اعلیٰ اہلکار نے کئی الزامات لگائے لیکن ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں، لیکن ان الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیئے کیونکہ اس قسم کے الزامات ہر جانب سے لگائے گئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انتخابات میں کئی جگہوں پر یہ فیصلے ہوچکے تھے کہ کس کو کیا دینا ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں کراچی میں ایک حلقے پر بائیکاٹ کرنا پڑا۔ تحریک انصاف قابل احترام جماعت ہے ان کی قیادت کو چاہیئے کہ معاملات حل ہوجائیں، ہمیں بات چیت کے دروازے بند نہیں کرنے چاہئیں۔
اس سلسلے میں کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے کیونکہ لچک ہوگی تو ڈیڈلاک ختم ہوگا لیکن اب تک انہیں کسی کے بھی لہجے میں لچک نظر نہیں آتی۔ حکومت کو اگر پاکستان کو بچانا اور معاشی طور پر مضبوط بنانا ہے تو اپنی انا کو ایک جانب رکھ کر ایک قدم پیچھے ہٹنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔