عام انتخابات میں تحریک انصاف نے پاکستان بھر میں ہلچل مچادی تھی اتنی پرجوش انتخابی مہم کسی سیاسی حریف نے نہیں چلائی ووٹوںکے لحاظ سے PTI دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری خیبر پی کے میں نامی گرامی اور سکہ بند قسم کے امیدوار اپنی ضمانتیں ضبط کروا بیٹھے 2013ء میں ہونے والے عام انتخابات میں ANP اورJUI (ف) سب سے زیادہ متاثر ہوئیں کہا جاتاہے ان پارٹیوں کے قائدین اب تلک سوچ رہے ہیں ان کے ساتھ کیا ہوا؟ مولانا فضل الرحمن ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں نکلے اور وہ تحریک ِ انصاف کے روایتی حریف بن کر ابھرے ہیں غالب خیال یہی ہے کہ آئندہ بلدیاتی انتخابات ہوں یا عام انتخابات تحریک ِ انصاف اور جمیعت العلمائے اسلام کے امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلے ہوں گے اور ان پارٹیوں کے مختلف نظریات جماعتوںکے ساتھ انتخابی اتحاد بنیں گے اور بن کر ٹوٹنے کی پیشگی پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔
اسی طرح متوقع بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی، جمیعت العلمائے اسلام اور دیگر جماعتوں کے درمیان سیاسی مفاہمت جاری ہے جونہی بلدیاتی انتخابات کا کوئی ناک نقشہ نمودار ہوا تحریک ِ انصاف کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک گرینڈ الائنس بننے کی قوی امید ہے اور جماعت اسلامی ، PTI اور دیگر ہم خیال جماعتیں بھی اپنے مشترکہ امیدوار لانے کی کوشش کریں گی جبکہ کہا جارہا ہے کہ KPK کی سابقہ حکمران پارٹی اے این پی ان دنوں عجیب مشکل سے دو چارہے اسفندیار ولی خان کو خود سمجھ نہیں آرہی کہ ان کی جماعت کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ پہلے کچھ رہنماساتھ چھوڑ گئے۔ اور اب بیگم نسیم ولی خان دم خم سے برسر ِ پیکارہیں یعنی ANP اپنی بقاء کی جنگ لڑرہی ہے اپنے مجبو ر تقدس کے سہارے ساغر دِ یر و کعبہ کے خدائوں سے لپٹ کر رو لوں
PTI
اب رہی بات تحریک ِ انصاف کی اس جماعت کو حکومت کیا ملی عمران خان کا امتحان شروع ہو گیا حالانکہ تحریک ِ انصاف کو بہت سے مسائل اور مسائل سے بڑے چیلنجز وراثت میں ملے ہیں اس وقت صوبہ خیبر پختون خواہ دہشت گردی سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے مئی 2013ء سے اب تک شاید ہی کوئی دن ایسا جب اس صوبے میں کوئی دھماکہ یادہشت گردی کا کوئی واقعہ نہ ہوا ہو متعدد ارکان ِ اسمبلی ان واقعات میں شہیدہو چکے ہیں ڈرون حملے، نیٹو سپلائی، بلدیاتی انتخابات کاانعقاد، امن و امان ، عوامی مسائل ، قومی ایشو اور اتحادی جماعتوں کی ناراضگی اس وقت تحریک ِ انصاف کیلئے وبال بنے ہوئے ہیں تحریک ِ انصاف کے وزراء مختلف مسائل میں الجھے ہوئے ہیں جبکہ پارٹی کے اندرونی اختلافات بھی موجود ہیں یہاں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں جا سکتا کہ گذستہ عام انتخابات میں عام آدمی نے تحریک ِ انصاف کو تبدیلی کے نام پرووٹ دیا تھا اور عمران خان کے نزدیک اس تبدیلی کا مطلب چہروں کی تبدیلی نہیں بلکہ سسٹم کی تبدیلی تھا۔
جس میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی البتہ خیبر پختون خواہ کی صوبائی حکومت نے سستے انصاف کے حصول کیلئے موبائل عدالت متعارف کروائی ہے بلا شبہ یہ پاکستان میں اپنی نو عیت کے اعتبار سے ایک اچھی روایت کاآغاز ہے ایسے مزید کئی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ عام آدمی کو بھی ریلیف مل سکے اس حکومت کو عوامی مسائل حل کرنے کیلئے ٹھوس حکمت ِ عملی تیار کرنا ہوگی اس وقت پرفارمنس کے حوالہ سے صوبہ خیبر پختون خواہ کی کارگذاری بالکل متاثر کن نہیں ہے۔
صوبہ بھر میں ٹوٹی سڑکیں، صفائی کی نا گفتہ بہ حالت ، گندگی کے ڈھیر، امن و امان کی سنگین صورت حال اور ترقیاتی کام نہ ہونے کا خمیازہ بلدیاتی انتخابات میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ KPKمیں کرپشن وکمیشن مافیا کا خاتمہ، سرکاری اداروں اور محکموں میں سیاسی مداخلت اور دبائو سے آزاد ماحول کا قیام، تھانے ، کچہری اور پٹوار خانوں سے ظلم و زیادتی کا خاتمہ ذاتی پسند نا پسندکی بجائے میرٹ پر فیصلے تحریکِ انصاف کی حکومت کی اولین ترجیحات ہونی چاہییں تاکہ تبدیلی محض نعروں تک محدود نہ رہے بلکہ حکومتی رویے اور معاملات میں نظر بھی آئے لوگوں کو محسوس بھی ہو اگر حکومت اچھی کارکردگی، انقلابی اقدامات، بہترین عوامی پالیسیاں اور عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب رہی تو یقینا اس سے KPK میں عنقریب ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں خوشگوار اثر پڑے گا۔ حدود ِ ذات سے باہر نکل کے دیکھ ذرا نہ کوئی غیر ،نہ کوئی رقیب لگتا ہے
دہشت گردی کے واقعات بھی KPK میں تحریک ِ انصاف کو درپیش چیلنجز میں سر فہرست ہے جس کیلئے مربوط حکمت ِ عملی، ٹھوس منصوبہ بندی ترتیب دینے کی اشد ضرورت ہے اس کو اہمیت دئیے بغیر امن و امان قائم نہیں ہو سکتا عوام کی جان و مال کے تحفظ کیلئے کسی رو رعائت نہیں ہونی چاہیے اس وقت KPK کے ارکان ِ اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ نہ دینے سے بھی ماحول گرم ہورہا ہے اس کے ساتھ ساتھ وزراء میں آپس کی چپقلش نے بھی مسائل پیدا کر رکھے ہیں جبکہ ممکنہ فوجی اپریشن کے خدشہ سے شمالی و جنوبی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ بھی تحریک ِ انصاف کی حکومت کو درپیش چیلنج ہے جس سے عہدہ برا ہونا اس حکومت کی نیک نامی کا سبب بنے گا۔ کہا جاتا ہے حکومت کرنا مخملی بستر پر سونے کا نام نہیں بلکہ یہ کانٹوں کا بچ ھونا ہے۔
ایک طرف حکومت عوامی توقعات پوری نہ اترے تو وہ عوام کے دل سے اتر جاتی ہے اس لئے پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتاہے اس لئے کہا جا سکتاہے صوبہ خیبر پختون خواہ میں جہاں تحریک ِ انصاف کو بہت سے مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے وہاں اس کے مد مقابل ایک مضبوط اور فعال اپوزیشن بھی موجود ہے اس سے بڑھ کر مذہبی انتہا پسندی کا دور دوہ ہے KPK میں کامیابی سے حکومت چلانے کا مطلب ہوگا تحریک ِ انصاف کو عوام نے جو بھاری مینڈیٹ دیا ہے اس میں وہ سرخرو رہی۔
نشیمن کو بوسے دئیے اور کہہ کریہ دل کو سمجھا لیا آشیاں بنانا میرا کام تھا کوئی بجلی گرائے تو میں کیا کروں بغور جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا تحریک ِ انصاف اپنے وعدوں کے برعکس صوبہ خیبر پختون خواہ میں ابھی تک اپنا پروگرام یا حکمت ِ عملی واضح کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی البتہ عوام کے جذبات کو Cash کروانے کیلئے ڈرون حملوں کے خلاف یا نیٹو سپلائی بند کرنے کے حوالے سے شدید احتجاج کیا گیاہے یہ عوام کو سب کچھ اس لئے اچھا لگا ہے کہ اس حوالے سے کوئی اور جماعت تحریک ِ انصاف کی طرح ایکٹو نہیں ہے صوبہ خیبر پختون خواہ میں عوام کا دل جیتنے کیلئے بڑے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔
جس کے لئے KPK کے وزیر ِ اعلیٰ اور تحریک ِ انصاف کی صوبائی تنظیم اور قائدین کو کچھ کرکے دکھانا ہوگا اس کے ساتھ ساتھ جو بات شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ آفتاب احمد شیر پائو جو ہمیشہ ایک فعال انداز سے سیاست کرنے کے عادی ہیں اب شاید وہ تحریک ِ انصاف کی کامیابیوں سے دلبرداشتہ ہوکر اب تلک خاموش ہیں انہوں نے تحریک ِ انصاف اور جمیعت العلمائے اسلام اور اے این پی کے درمیان جاری کش مکش سے فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی نہیں کی آفتاب احمد شیر پائو کو اس تناظر میں اپنی جماعت کوایک بار پھر فعال ، متحرک اور منظم بنانے کیلئے میدان میں آنا چاہیے مذہبی اور سیاسی انتہا پسندی کے ماحول میں وہ پھر سیاسی افق پر چھا سکتے ہیں۔ افق پر دور کوئی چمکتا ہوا تارا مجھے چراغ ِ دیار ِ حبیب لگتا ہے