تحریر: سید انور محمود کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 245 اور سندھ اسمبلی کے حلقے پی ایس 115 کی دونوں نشستیں ایم کیو ایم کی چھوڑی ہویں تھیں، 7 اپریل 2016ء کے انتخابات میں دونوں نشستیں ایم کیو ایم کو واپس مل گیں۔ حلقہ این اے 245 کی نشست ایم کیو ایم کے وسیم اختر کے میئر کراچی منتخب ہونے کی وجہ سے خالی ہوئی تھی جبکہ حلقہ پی ایس 115 کی نشست ارشد ووہرا کے ڈپٹی میئر منتخب ہونے پر خالی ہوئی تھی۔ الیکشن کمیشن کے انتخابی پروگرام کے اعلان کے بعد کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ حلقہ 245 میں کافی اچھا مقابلہ ہو گا۔ اس کے بہت سارئے عوامل موجود تھے جن میں سے ایک مصطفی کمال کی آمد بھی تھی، لیکن مصطفی کمال اینڈ کمپنی نے اپنے آپ کو ان ضمنی انتخابات سے دور رکھا۔ این اے 246 اور بلدیاتی انتخابات میں اپنی شرمناک شکست کے بعد جماعت اسلامی کو شایدیہ ہی خیال آیا ہوگا کہ بس بہت ہو گیا۔
ہم تو کراچی کو استنبول بناکر دینا چاہ رہے تھے لیکن یہ کراچی والے تو ہمارئے بارئے میں پکی رائے قائم کرچکے ہیں کہ ہم دہشتگردوں کے بھائی ہیں، لہذا جماعت اسلامی جو اپنے آپ کو کراچی کا ٹھیکدارسمجھتی ہے اس مرتبہ کراچی کے ضمنی انتخابات سے ایسے ہی غائب تھی جیسے گدھے کے سرسے سینگ۔ پیپلز پارٹی جس نے حلقہ این اے 246 کی طرف دیکھا بھی نہیں تھا ، اس نے حلقہ این اے 245 کی اور حلقہ پی ایس 115 کی دونوں نشستوں پر اپنے امیدواروں کو کھڑا کیا اور دونوں کی ضمانت ضبط ہوگئی۔ باقی دونوں حلقوں میں اور بھی امیدوار تھے جن میں حلقہ پی ایس 115 میں آفاق احمد کی مہاجر قومی موومنٹ بھی تھی جس کےلیے باعث شرم تھاکہ اس کے امیدوار کو صرف 1070 ووٹ ملے جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار نے 1368 اور تحریک انصاف کے امیدوارنے 1100 ووٹ حاصل کیے۔
عمران خان پاکستان کے وہ عظیم سیاسی رہنما ہیں جنکو سیاست کے علاوہ سب کچھ آتا ہے، انکی جماعت تحریک انصاف اپنی ناکام تنظیمی ڈھانچے اور مردم ناشناسی کے جس مرض کی شکار ہے، وہ کراچی میں بہت بُری طرح ظاہر ہوا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ عمران خان نے کراچی کے لوگوں کو زندہ لاشوں سے تشبیہ دی تھی اوراب ایک زندہ لاش ان کی جانب سے ایم کیو ایم کو ملی ہے جو تحریک انصاف کا نامزد امیدوار تھا۔
Imran Khan
کراچی کے حلقہ 245 کے ضمنی انتخابات میں ووٹنگ سے چند گھنٹے قبل ہی تحریک انصاف کا نامزد امیدوار امجداللہ خان اپنے حریف ایم کیوایم کے امیدوار کے حق میں نہ صرف دستبردار ہوگیا بلکہ اپنی جماعت کو چھوڑ کر ایم کیوایم میں شامل ہوگیا۔ عمران خان کو کراچی سے کتنی دلچسپی ہے اس کا اندازہ تحریک انصاف کے نامزد امیدوار امجداللہ خان کے اس بیان سے کیا جاسکتا ہے کہ ‘‘عمران خان نے مجھے امیدوار بنایا تھا تاہم جب ان سے انتخابی مہم کےلیے کراچی آنے کا کہا تھا تو انہوں نے آنے سے منع کردیا اور مجھے انتخابات میں اکیلا چھوڑدیا گیا’’۔
ایم کیو ایم کے کمال ملک قومی اسمبلی حلقہ این اے 245 کی نشست پر اور فیصل رفیق سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 115 کی نشست پر کامیاب ہوئے۔ ان کے مدمقابل ہارنے والے تمام امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں۔ ضمنی انتخابات میں ووٹ دینے والوں کی تعداد انتہائی مایوس کن تھی۔ ان انتخابات میں ووٹر زکی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔ مجموعی طور پر حلقہ این اے 245 پر 11.21فیصد اور صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 115 میں تقریباً 10فیصد لوگوں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ بظاہر تو ایم کیو ایم قومی اور صوبائی اسمبلی میں اپنی نشستیں برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے لیکن اگر ہم ان دو نشستوں کے7 اپریل 2016ء اور مئی 2013ء کے عام انتخابات کےاعداد و شمار کا مقابلہ کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ7 اپریل کے انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان ایم کیو ایم کو پہنچا ہے۔
مئی 2013ء کے انتخابات میں عوام نے ایم کیو ایم کوقومی اسمبلی کے حلقہ این اے 245 میں ایک لاکھ 15 ہزار 810 ووٹ دیے تھے، جبکہ 7 اپریل 2016ء کو اسی حلقہ کے عوام نے ایم کیو ایم کے امیدوار کو 39 ہزار 597 ووٹ دیے۔ مئی 2013ء کے ہی عام انتخابات کےاعداد و شمار کے مطابق سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 115 میں ایم کیو ایم کے امیدوار کو 55 ہزار 804 ووٹ ملے تھےجبکہ 7 اپریل 2016ء کو اسی حلقہ کے عوام نے ایم کیو ایم کے امیدوار کو 11 ہزار 747ووٹ دیے۔ ان ادعداد شمار کو دیکھنے کے بعد پتہ چلتاہے کہ مئی 2013ء کے عام انتخابات میں جو ووٹ ایم کیو ایم نے این اے 245 میں حاصل کیے تھے اس کےصرف 34.19 فیصداس کو 7 اپریل کو ملے ہیں، اس طرح ہی سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 115 میں ایم کیو ایم کے امیدوار کو21.05 فیصد ووٹ ملے ہیں۔
Election
کراچی میں سیاست کرنے میں ایم کیو ایم کے علاوہ کسی بھی سیاسی جماعت کو دلچسپی نہیں، اسکی وجہ یہ ہے کہ 1988ء سے 2013ء تک کوئی بھی جماعت علاوہ ایم کیو ایم کراچی میں کامیاب نہیں ہوپائی، ان ناکام ہونے والی جماعتوں کی طرف سے ایم کیو ایم پر ٹھپے لگانے ، ووٹروں کو دھمکانے کے علاوہ ٹارگیٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائم میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ ان تمام الزامات کے باوجود کیا کبھی ان سیاسی جماعتوں نے کراچی کے عوام کے لیے کوئی آواز اٹھائی، بلکل نہیں، تو پھر کراچی کےعوام جو کراچی کو کچرا بنتے دیکھ رہے ہیں انکو ان انتخابات سے کیونکر دلچسپی ہوگی، 2013ء کے انتخابات میں کراچی سے آٹھ لاکھ ووٹ لینے والی جماعت تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے اس کے بعد کبھی بھی کراچی کو اپنی سیاست کا محور نہیں بنایا اور 7 اپریل کے انتخابات سے ان کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ انکی سیاست لاہور، اسلام آباد اورپشاور کے گرد گھومتی ہے۔
ایم کیو ایم جو آج ابتری کا شکار ہے اسکی وجہ اس کے قائد الطاف حسین خود ہیں ۔آج الطاف حسین کے بارئے میں کہا جاتا ہے کہ‘‘الطاف حسین میں نہ تو مستقل مزاجی ہے اور نہ ہی ایک سلجھے ہوئے رہنما جیسی علامات۔ یہ الطاف حسین ہی ہیں جو کبھی پاکستان سے علیدگئی کی بات کرتے ہیں تو کبھی پاکستان سے محبت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ آرمی چیف کو دہشتگروں سے لڑنے کے لیے اپنے ہزاروں کارکن پیش کیے جاتے ہیں۔ جمہوریت ہوتے ہوئے مارشل لا کی مانگ کرتے ہیں۔
کراچی میں فوجی آپریشن کا مطالبہ کرتے ہیں اور جب خود آپریشن کی زد میں آتے ہیں تو فوج کے خلاف سخت بیانات کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں ’’۔ ان کی ایسی ہی تقاریر کی وجہ سے ان پر پابندی لگائی گئی ہے، اب میڈیا نہ تو ان کا کوئی بیان نشرکرسکتا ہے اور نہ ہی انکی تصویر دکھا سکتا ہے۔ آج ایم کیو ایم ٹوٹ پھوٹ کا بھی شکار ہے، ایم کیو ایم کے کچھ رہنما پارٹی سے علیدہ ہوگے ہیں اور کچھ بیرون ملک چلے گئے ہیں،۔ شاید ان ہی وجوہات کی وجہ سے 7 اپریل کے ضمنی انتخابات میں عوام کی عدم دلچسپی واضع تھی۔